Corona Virus Alamat O Ehtiyat - Qist 2 - Article No. 1850

Corona Virus Alamat O Ehtiyat - Qist 2

کورونا وائرس ۔ علامات و احتیاط ۔ قسط نمبر2 - تحریر نمبر 1850

کورونا وائرس سے بچاوٴ کے لیے ہر دوسرا فرد اس وقت ماسک پہننے کے مشورے بھی دے رہا ہے اورہا تھوں پر دستانے بھی ، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ماسک یا دستانے آپ کو وائرس کو براہِ راست منتقل ہونے سے تو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں

جمعرات 30 اپریل 2020

(گزشتہ سے پیوستہ )
کورونا وائرس سے بچاوٴ کے لیے ہر دوسرا فرد اس وقت ماسک پہننے کے مشورے بھی دے رہا ہے اورہا تھوں پر دستانے بھی ، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ماسک یا دستانے آپ کو وائرس کو براہِ راست منتقل ہونے سے تو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں لیکن بہرحال کسی مریض کے چھونے کی صورت میں وہی ماسک یا دستانے اس وائرس کے پھیلاوٴ کے ممکنہ کیریر کی صورت میں آپ کے ساتھ ہونگے اور جونہی آپ ان ہی دستانوں والے ہاتھوں سے چہرے کو کہیں ہاتھ لگائیں گے یہ وائرس آنکھوں یا ناک یا منہ کے ذریعے آپ کے جسم میں منتقل ہو جائے گا۔

یہ بھی بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر فرد کو ماسک اور دستانوں کی ضرورت نہیں ، نہ ہی یہ آپ کو مطلقاً کورونا وائرس سے بچا سکتے ہیں ، بلکہ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس ، نرسز ، میڈیکل شعبے سے وابستہ افراد جو ان مریضوں کا علاج کر رہے ہیں اور جو لوگ ایسے شعبوں سے بسلسلہِ روزگار یا کسی اور وجہ سے وابستہ ہیں کہ ان کے لیے میل ملاقات اور پرہجوم جگہ جائے بنا گزارا نہیں تو ان کے لیے ایک ممکنہ احتیاطی تدبیر کے طور پر ماسک اور دستانوں کا استعمال ممد و معاون ہو سکتا ہے ، لیکن ان کو روزانہ کی بنیاد پر تبدیل کرنا لازم ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا لازم ہے کہ ماسک یا دستانوں کے ساتھ چہرے کو چھونے سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔

(جاری ہے)


کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے ؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ کورونا وائرس بلا تفریقِ جنس و عمر چھوٹے بڑے نوجوان بوڑھے مرد و عورت کو یکساں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر ابھی تک معلوم مصدقہ معلومات کے مطابق 9 سال سے کم عمر کسی بچے کی اس وائرس سے ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ عام طور پر نوجوان اور بہترین قوتِ مدافعت رکھنے والے مرد و عورت اور بچوں کے اس وائرس کے حملے سے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ وائرس عموماً ادھیڑ عمر کے بزرگ خواتین و حضرات اور ان لوگوں میں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جن کی قوتِ مدافعت پہلے ہی کسی وجہ سے کمزور ہو یا جو کسی بھی وجہ سے کسی عارضہِ تنفس کا شکار ہوں ۔ اس لیے ایسے لوگوں اور ان کے عزیز و اقارب اور گھر میں رہنے والوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس کا مریض یا ممکنہ مریض کیا کرے اور ڈاکٹر سے کب رجوع کرے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس کسی کو بھی کورونا کی کوئی علامات محسوس ہونا شروع ہوں وہ ابتدائی طور پر ازخود اپنے آپ کو کم از کم ایک ہفتے کے لیے سب سے علیحدہ کر لے ، دور سے سلام دعا کرے اور ممکنہ احتیاط کے طور پر اپنے کھانے پینے اور برتنے کے برتن ، کپڑے وغیرہ سب سے علیحدہ رکھے اور اپنی علامات کا خود یا گھر کا کوئی فرد جائزہ لیتا رہے۔ کیونکہ کورونا وائرس کا سب سے زیادہ خطرہ مریض کے گھر والوں اور قریب ترین افراد کو ہو سکتا ہے اور یہ وائرس آنکھ ، ناک اور منہ سے جسم میں داخل ہو سکتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ عام حالات میں مریض سے کم از کم تین فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں کہ مریض کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے قریب ہی نہ جایا جائے بلکہ مقصد صرف اتنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ مریض کا خیال رکھا جائے تاکہ یہ وائرس آگے مزید صحتمند افراد کو منتقل نہ ہو سکے۔ خود کو قرنطینہ میں لے جانے والا شخص باقی گھر کے افراد سے مناسب فاصلہ رکھ کر اپنے روزمرہ کے امور سرانجام دے سکتا ہے ، گھر میں واک کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، بس یہ امر ملحوظ رہے کہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وائرس اگر ہے تو اس کا پھیلاوٴ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ یاد رہے کہ بخار یا کھانسی یا نزلہ زکام کا مطلب ہرگز کورونا وائرس نہیں ، اس لیے ڈرنے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ عام فلو وائرس ہو اور چند دن میں بندہ مکمل صحتیاب ہوجائے لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی کھانسی وقفے وقفے سے ہونے والی کھانسی نہیں بلکہ مسلسل ہونے والی کھانسی ہوتی ہے اور یہ خشک کھانسی ہوتی ہے ، اس میں کسی قسم کا بلغم نہیں ہوتا اور اس کا بخار 100 ڈگری یا اس سے زائد کا بخار ہوتا ہے اور مسلسل ہوتا ہے سو اس بخار اور کھانسی کے تسلسل اور سانس پھولنے یا سانس میں تنگی کی شکایت کی علامات میں شدت کی صورت میں حکومت کے نامزد کردہ ہسپتال سے رجوع کرے تاکہ اس کا ٹیسٹ ہو اور ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں ممکنہ علاج کیا جا سکے۔

کورونا وائرس کا ممکنہ علاج یا دوا کیا ہو سکتی ہے ؟ کیا انٹی بائیوٹک ادویات کے ذریعے اس کا علاج ممکن ہے ؟ یہ ایک عام غلط فہمی ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ تھوڑی سی بھی گلے ناک یا چھاتی کی انفیکشن ہو تو انٹی بائیوٹک لے لیتے ہیں جو کہ ہمارے ہاں میڈیکل سٹورز سے عام مل جاتی ہیں۔ یاد رکھیے کورونا بیکٹیریا نہیں بلکہ وائرس ہے اور کسی بھی قسم کی اینٹی بائیوٹک ادویات اس کے علاج میں ہرگز مفید نہیں ہو سکتیں۔
اس سے ممکنہ بچاوٴ تنہائی اور فاصلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس ضمن میں ایک اچھی اور حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکی ادارے ایف ڈی اے نے اینٹی ملیریل دوا کلوروکوئن اور ہائیڈروکسی کلوروکوئن کو کورونا وائرس کے علاج میں مفید پاتے ہوئے اس کی منظوری دی ہے۔ لیکن اس کا استعمال بھی مستند معالج کے مشورے کے بغیر ہرگز ہرگز نہ کیا جائے۔ (جاری ہے )۔

Browse More Healthart