Coronavirus, Kuch Mghalte Aur Un Ke Jawabaat - Article No. 1859

Coronavirus, Kuch Mghalte Aur Un Ke Jawabaat

کرونا وائرس، کچھ مغالطے اور ان کے جوابات - تحریر نمبر 1859

اگر بالفرض کسی شخص میں کورونا وائرس مثبت آ بھی جائے تب بھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب لازمی موت آ گئی بلکہ ایسی صورت میں بھی اگر علامات میں انتہائی زیادہ شدت نہیں تو 96-97فیصد امکان اس بات کا ہے کہ آپ احتیاطیتدابیر اور علاماتی علاج کے ذریعے 7-10 دن میں اس سے مکمل شفایاب ہوجائیں گے

ہفتہ 9 مئی 2020

آج کے کالم میں ہم صرف کورونا وائرس کے حوالے سے پھیلنے والے کچھ مغالطوں کی بات کریں گے جو اس کی بنیادی علامات سے متعلق ہیں۔گزشتہ کئی روز سے ہمارے کئی جاننے والے اس بارے میں ہم سے بھی سوال کررہے ہیں اور کئی سینئر جونئیردوست ساتھی ڈاکٹروں سے بھی ان کے حلقہِ احباب میں لوگ اسی قسم کے سوالات کر رہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب !مجھے کل ہلکی سی کھانسی ہوئی تھی کیا یہ کورونا ہے ؟ یا ایک خاتون جنھیں کئی ماہ پہلے سے سینے میں تنگی کا احساس رہتا تھا ، انھیں یہ گمان گزرا کہ کہیں یہ کورونا ہی نہ ہو۔
ایسے ہی کوئی سوال کرتا ہے کہ آج صبح مجھے سانس میں تنگی محسوس ہوئی تھی ،کیا مجھے کورونا ہو گیا ہے ؟ یا مجھے نزلہ ہوگیا ہے ،لگتا ہے کہ مجھے کورونا ہو گیا ہے -نزلہ زکام ویسے بھی ان دنوں میں عام ہوتا ہے ، اس میں کوئی نئی بات نہیں مگر کورونا وائرس کی وجہ سے یہ بھی اس وقت خوف کی علامت بن چکا ہے اور ادھر کسی کو چھینک آتی ہے تو سب سمجھتے ہیں کہ اس کو کورونا لاحق ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہی حال کھانسی کا بھی ہے۔ بالعموم مسلسل سالہاسال سے سگریٹ پینے والے یا نشے کی عادی افراد میں کھانسی ایک عام سی بات ہوتی ہے لیکن موجودہ حالات میں ہلکی سے کھانسی بھی دل دہلا رہی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ چیز اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اب تک پوری دنیامیں کورونا وائرس کے مریضوں میں جو سب سے بڑی علامت پائی گئی ہے ،وہ مسلسل بخار ہے جو شروع میں 100 ڈگری یا اس سے زائد کا بتایا جا رہا تھا لیکن اب نئی تحقیق کے مطابق کم درجے کابھی ہو سکتا ہے لیکن بخار مسلسل ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اسے خشک کھانسی ہوتی ہے جو مسلسل ہوتی ہے (یاد رہے یہ کھانسی ،خشک کھانسی ہوتی ہے ، اس میں بلغم نہیں آتا)، اور تیسرے نمبر پر اسے سینے میں تنگی کا احساس ہوتا ہے یا سانس لینے میں دقّت محسوس ہوتی ہے اور یہ علامت بھی مسلسل ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اگرچہ کئی کیسز ایسے بھی آئے ہیں جن میں مریضوں میں کوئی بھی معلوم علامت نہیں پائی گئی لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، اگرچہ احتیاط کا پہلو بہرحال تھام کر رکھنا چاہیے۔ہم یہ علامات گزشتہ کالمز میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں لیکن یہاں ان کو دوبارہ بیان کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ قارئین اس کو اچھی طرح سے سمجھ لیں۔
دیکھیے اگر آپ کو نزلہ زکام ہو گیا ہے یا ہلکی کھانسی ہوئی ہے ،یا کسی کسی وقت یا کسی بھی وجہ سے آپ کو ایک آدھ دفعہ سانس لینے میں تنگی کا احساس ہوا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کو لازمی طور پر کورونا ہو گیا ہے۔ اس کو خود پر طاری مت کیجیے۔اور اپنے ساتھ ساتھ باقی گھر والوں کو بھی پریشان مت کیجیے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ عام حالات میں ہونے والا نزلہ زکام ہے یا کھانسی ہے ، یا اگر کوئی دمہ کا مریض ہے یا اسے نمونیہ ہے یا دل کا کوئی عارضہ لاحق ہے تو ایسے مریضوں میں سانس پھولنا ان کی اس بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں ہے کہ اس کو کورونا ہو گیا ہے۔ اس لیے مطمئن رہیے۔ خود کو اور تمام اہلِخانہ کو بھی تسلی دیجیے کہ یہ معمول کا حصہ ہے اورگزر جائے گا جیسے تقریباً سبھی کوہمارے معاشرے میں صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ہاں جیسا اوپر بیان کیا گیا کہ بالفرض آپ کو مسلسل بخار رہنے لگے اوربخار کے ساتھ مسلسل خشک کھانسی ہو تو پہلے مرحلے میں اپنے آپ کو گھر کے کسی کمرے میں علیحدہ کر لیجئے اور علامات کا جائزہ لیتے رہیے ، بخار کے لیے عمومی طور پر گھروں میں پیراسیٹامول عام استعمال کی جاتی ہے ، پس مسلسل بخارکی صورت میں صبح شام وہی لیجیے اور اپنی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے پھلوں سبزیوں اور جوس اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ سے کر دیجیے (یاد رہے ، ان سب چیزوں کا استعمال عام حالات میں بھی زیادہ کیا کیجیے کیونکہ یہ انسان کی قوتِ مدافعت کو بڑھاتے ہیں اور اسے صحتمند رکھتے ہیں)، عمومی طور پر تو یہ تین چارروزمیں خود ہی ختم ہو جائے گا ، لیکن اگر علامات میں شدت محسوس ہونا شروع ہو اورسانس میں تنگی محسوس ہو، تویہ وہ لمحہ ہے جب آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اوراحتیاط کے طور پر کورونا کے لیے ٹیسٹ کروا لینا چاہیے اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ٹیسٹ مثبت ہی آئے ، زیادہ تر صورتوں میں اس کے منفی آنے کا امکان زیادہ ہوگا۔
اور اگر بالفرض کسی شخص میں کورونا وائرس مثبت آ بھی جائے تب بھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب لازمی موت آ گئی بلکہ ایسی صورت میں بھی اگر علامات میں انتہائی زیادہ شدت نہیں تو 96-97فیصد امکان اس بات کا ہے کہ آپ احتیاطیتدابیر اور علاماتی علاج کے ذریعے 7-10 دن میں اس سے مکمل شفایاب ہوجائیں گے۔ علامات میں شدت کی صورت میں بہرحال ہسپتال میں یا قرنطینہ میں داخل ہو نا پڑے گا۔
ایک سوال بچوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے۔عام سوجھ بوجھ کے حامل والدین سوشل میڈیا پر میسر معلومات پڑھ کر خوش ہو رہے ہیں کہ بچوں میں کورونا وائرس کا کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ سنجیدہ فکروالدین بجا طور پر چھوٹے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔ والدین اولاد کے معاملے میں چونکہ قدرتی طور پر زیادہ حساس بھی ہوتے ہیں اس لیے اس پہلو کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
ابھی تک کی گئی تحقیق کے مطابق بچوں میں کورونا وائرس کے کیس نہ ہونے کے برابر ہیں اور حال ہی میں Yale University Connecticut USA میں 44672 مستند کورونا کے مریضوں پر تحقیق کی گئی جن میں سے صرف 1023 یعنی ایک فی صد مریض دس سال سے کم عمر بچے پائے گئے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی کورونا وائرس کی وجہ سے وفات نہیں ہوئی۔(تحقیق و تجزیہ بحوالہ Layal Liverpool newscientist.com ( اس خبر میں یقیناً جہاں والدین کے لیے خوشی کا پہلو ہے اوران کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ دس سال سے کم عمر بچے عموماً اس وبا کے اثرات سے ابھی تک قدرتی طور پر محفوظ رہے ہیں وہیں لمحہِ فکر بھی ہے کہ بہرحال بچے صرف ایک فیصد سہی لیکن کورونا وائرس سے متاثر ضرور ہورہے ہیں۔
یہاں یہ بات پیشِنظر رہنی ضروری ہے کہ اگرچہ بچوں میں کورونا وائرس کی صورت میں شرحِ اموات صفر ہے لیکن بہرحال بچے کورونا وائرس کے ممکنہ حامل یا careersضرور بن سکتے ہیں اور اپنے والدین اور افرادِخانہ کو اس میں مبتلا کر سکتے ہیں۔کیونکہ محفوظ سمجھ کر گھر سے باہر لے جانے کی صورت میں آپ کے بچوں کا دوسرے بچوں سے میل جول ایک لازمی امر ہوگا جسے روکنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
اس لیے اپنے بچوں کو اور خود اور اپنے گھر والوں اور آس پاس کے لوگوں کو بچانے کی خاطر بڑوں کی طرح چھوٹے بچوں کو بھی سختی کے ساتھ گھروں تک محدود رکھیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں یہی وہ واحد طریقہ ہے جس پر عمل کر کے آپ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔ (تصیح:ہمارے کیلوریز والے کالم میں چکن کری کی کیلوریز غلطی سے 560 چھپ گئی تھیں، جبکہ درست کیلوریز 239ہیں جو 100 گرام فی پلیٹ کے حساب سے ہیں، اسی طرح پوائنٹ نمبر4 اور 14 ایک ہی ہیں، ایک چپاتی میں 104 کیلوریز ہوتی ہیں۔
اس غلطی کی نشاندہی ہمارے دیرینہ دوست محترم ڈاکٹر فہد اقبال حال مقیم انگلینڈ نے کی۔اسی طرح مساجد پر جبری لاک ڈاؤن کی پہلی قسط والے کالم میں ہم نے آس پڑوس کی اصطلاح استعمال کی تھی جس پر ہمارے بزرگ اور عربی کے استاد محترم علامہ افضل منیر حال مقیم منیر آباد واہ نے کرم نوازی فرماتے ہوئے ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ زبان کے لحاظ سے آس پاس یا اڑوس پڑوس درست اصطلاح ہے، ہم اپنے تمام قارئین سے معذرت کے ساتھ ساتھ ہر دو احباب کے تہہِ دل سے شکر گزار ہیں۔)

Browse More Healthart