Coronavirus Se Dimaghi Khaliye Mutasir - Article No. 2283

Coronavirus Se Dimaghi Khaliye Mutasir

کورونا وائرس سے دماغی خلیے متاثر - تحریر نمبر 2283

ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہونے کے بعد کورونا وائرس کا پھیلاؤ فوری طور پر رُک جاتا ہے، جس سے معمولی نقصان پہنچتا ہے

جمعرات 28 اکتوبر 2021

شیما صدیقی
ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم کی ایرازمس (Erasmus) یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی امریکی ایم اسفیئر (mSphere) مائیکرو بائیولوجی نامی جرنل میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہونے کے بعد کورونا وائرس کا پھیلاؤ فوری طور پر رُک جاتا ہے، جس سے معمولی نقصان پہنچتا ہے۔کورونا وائرس کے دماغ میں داخل ہونے کے بعد قلیل مقدار میں لحمیات (پروٹینز) بنتی ہیں،جو جسم کے مدافعتی نظام (امیون سسٹم) میں پیغام رسانی کا کام کرتی ہیں۔
یہ ایسے اندرونی تعدیوں (انفیکشنز) میں کردار ادا کرتی ہیں،جن سے وائرس کے شکار شدہ افراد میں دماغی اور اعصابی پیچیدگیوں کا امکان ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایرازمس یونیورسٹی کی ماہرِ امراض (وائرولوجسٹ) ڈیبی وین ریل (Debby Vanriel) کا کہنا تھا کہ جو ہم نے دیکھا، وہ اس حقیقت سے قریب تر تھا کہ سارس۔

(جاری ہے)

کووی۔2(Sars-Cov-2) تعدیہ شاذ و نادر ہی دماغ کی سوزش کا سبب بنتا ہے،جس میں وائرس بے قابو ہو کر دماغ میں پھیل جاتا ہے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سارس۔

کووی۔2 عصبہ شامہ (Olfactory Nerve) کے ذریعے دماغ میں داخل ہو کر محدود پیمانے پر خلیوں کو متاثر کر سکتا ہے،جس کی وجہ سے دماغی سوزش اور اعصابی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ کورونا وبا کے آغاز سے اب تک دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں میں اعصابی اور نفسیاتی پیچیدگیاں،مثلاً یادداشت کے مسائل،سر کا درد اور کچھ کیسوں میں دماغی سوزش بھی سامنے آئی ہیں۔

لین سیٹ (Lancet) نامی رسالے میں شائع کردہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر تین میں سے ایک شخص میں چھے ماہ کے اندر ان پیچیدگیوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ایرازمس یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی فیمکے ڈیورج (Femke Devrij) نے بتایا کہ اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں مدافعتی نظام بھی غالباً اپنا کردار ادا کرتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وائرس خلیوں میں مختصر مدت کے لئے رہتا ہے۔
ہم نے دماغی خلیوں کی محدود تعداد دیکھی ہے۔مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مختصر اور طویل مدت میں وائرسی تعدیہ دماغی ساخت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔
اس عرصے میں 72 برس کی عمر کے ایک برطانوی شہری کا کورونا ٹیسٹ مسلسل 10 مہینے مثبت (Positive) آیا۔تحقیق کاروں کے مطابق یہ تعدیے سے طویل عرصے تک متاثر رہنے کا ریکارڈ ہے۔مغربی برطانیہ کے شہر برسٹل کے ایک رہائشی ڈیو اسمتھ (Dave Smith) ایک رٹائرڈ ڈرائیونگ انسٹرکٹر ہیں۔
ڈیو نے بتایا کہ ان کا کورونا ٹیسٹ 43 مرتبہ مثبت آیا۔وہ سات مرتبہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور انھوں نے اپنی آخری رسومات کی منصوبہ بندی بھی کر لی تھی۔میں نے خود کو تیار کر لیا تھا،لہٰذا اپنے خاندان والوں کو بلایا۔سب سے ملا اور خدا حافظ کہا۔یہ ایسا ہے کہ جیسے آپ کو دوبارہ نئی زندگی ملی ہو۔ڈیو کے ساتھ گھر میں قرنطینہ (Isolation) کی مدت گزارنے والی اُن کی بیوی لنڈا (Linda) کا کہنا تھا کہ یہ پورا برس مشکل ترین تھا۔
متعدد بار ایسا لگا کہ ڈیو شاید ہی اس حالت سے نکل پائیں۔
یونیورسٹی آف برسٹل اور این ایچ ایس نارتھ برسٹل کے مشیر برائے متعدی امراض (Consultant) ایڈ مورن (Ed Moran) کے مطابق اس سارے عرصے میں ڈیو کے جسم میں وائرس متحرک رہا۔ہم یہ ثابت کرنے کے اس وقت قابل ہوئے،جب وائرس کا نمونہ معائنے کے لئے یونیورسٹی کو بھیجا گیا۔انھوں نے وائرس کے نمونے کی افزائش کی،جس کے بعد ثابت ہوا کہ یہ محض وائرس کی باقیات نہیں ہیں،جن کی وجہ سے پی سی آر ٹیسٹ (PCR Test) کرایا گیا،بلکہ یہ ایک مکمل طور پر متحرک وائرس تھا۔
امریکی بائیو ٹیک فرم ری جنیرن (Regeneron) کی تیار کردہ مصنوعی ضد اجسام (اینٹی باڈیز) کے آمیزے (کاک ٹیل) سے علاج کے بعد اسمتھ صحت یاب ہو گئے ۔ری جنیرن کی دوا کھانے کے بعد 45 دن اور تعدیے سے متاثر ہونے کے 305 دن کے بعد بالآخر ڈیو کا کورونا ٹیسٹ منفی (Negative) آیا،جس کے بعد ڈیو اور ان کی بیوی نے جشنِ صحت منایا۔
مطبی آزمائش (Clinical Trial) کے نتائج کے مطابق علاج سے ان کووڈ۔19 کے مریضوں کی اموات کی تعداد میں کمی آئی ہے،جن کا مدافعتی نظام زیادہ طاقتور نہیں تھا۔ڈیو کا علاج باضابطہ طور پر سرکاری طبی آزمائش کا حصہ نہیں تھا،لیکن اب اُن کے کیس پر یونیورسٹی آف برسٹل کے ماہرِ امراض اینڈریو ڈیوڈسن (Andrew Davidson) مزید تحقیق کر رہے ہیں۔

Browse More Healthart