Covid-19 Aur Flu Mein Farq - Article No. 2055

Covid-19 Aur Flu Mein Farq

کووڈ۔19 اور فلو میں فرق - تحریر نمبر 2055

والدین یہ سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ یا اُن کے بچے موسم سرما میں بیمار نہ پڑ جائیں،لیکن آج کل کے حالات میں یہ جاننا اتنا آسان نہیں ہے کہ وہ کون سے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں،انفلوئنزا میں یا کووڈ۔19 میں

جمعرات 14 جنوری 2021

ڈونالڈجی۔مک نیل جونیئر
جب بھی انفلوئنزا کا موسم آتا ہے،کچھ افراد خاص طور پر والدین یہ سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ یا اُن کے بچے موسم سرما میں بیمار نہ پڑ جائیں،لیکن آج کل کے حالات میں یہ جاننا اتنا آسان نہیں ہے کہ وہ کون سے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں،انفلوئنزا میں یا کووڈ۔19 میں۔ وہ ایسا صحیح سوچتے ہیں۔
ان دونوں امراض کی زیادہ تر علامتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں،مثلاً ان کی تشخیص کے لئے یا تو ایک ہی ٹیسٹ پر انحصار کر لیا جاتا ہے یا پھر دو تین ٹیسٹ مزید کرائے جاتے ہیں،لہٰذا اس ضمن میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا،لیکن کچھ اشارے ایسے ہیں،جن کی مدد سے انھیں پہچانا جا سکتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں امراض کے تعدیے (انفیکشن) ایک ہی وقت میں لاحق ہو جائیں۔

(جاری ہے)

اس سال چین میں کچھ ایسے مریض بھی منظر عام پر آئے ہیں،جو دونوں تعدیوں میں مبتلا تھے۔
دنیا کے جنوبی حصے میں ہونے والی فلو کی سرگرمی اکثر امریکہ میں بھی کارفرما نظر آتی ہے۔موسم سرما میں فلو کی یہ سرگرمی جنوبی حصے میں 99 فیصد نارمل سے بھی کم ہوتی ہے۔وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے،کیونکہ آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،جنوبی افریقہ، چلی اور جنوبی حصے میں رہنے والے باشندے کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے ماسک پہنتے ہیں،ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح کی احتیاطیں فلو سے بچنے کے لئے بھی کی جاتی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنوبی حصے اور امریکہ کے درمیان ہوائی سفر بہ مشکل چند فلائٹوں پر ہی مشتمل ہوتا ہو گا،یعنی بہت کم ہوتا ہے، لہٰذا امریکہ میں موسمی فلو کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر فلو کا حملہ ہو بھی جائے تو امریکی ماسک پہن کر اور سماجی فاصلے کے ذریعے فلو کے پھیلاؤ کو بڑی حد تک کم کر دیتے ہیں۔

مذکورہ حقائق کے باوجود ماہرین فلو کا ٹیکہ(انجکشن) لگوانے کی ہدایت کرتے ہیں۔لاک ڈاؤن کے دوران اس کے خراب اختتام سے پہلے گزشتہ سال امریکہ میں فلو کی شدت حالیہ سالوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ رہی۔اس مرض میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 2017ء اور 2018ء کے موسم میں مرنے والے بچوں کی تعداد کے برابر تھی،یہ صورت حال اس وقت سے بھی زیادہ خراب تھی،جب سے امراض کی روک تھام اور بچاؤ کے ادارے نے 1976ء سے فلو کے موسم میں مرنے والوں کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کام شروع کیا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر فلو کا ٹیکہ لگوانے کے بعد بھی آپ فلو میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو کم از کم آپ کے اسپتال میں داخل ہونے یا مرنے کے امکانات بہرحال ختم ہو جاتے ہیں۔
ٹھنڈ لگنے اور فلو کے لاحق ہونے میں کیا فرق ہے؟اس کو سمجھنے کے لئے یہ ذہن میں رکھیے کہ کم از کم 100 وائرس ایسے ہیں ،جو عام نزلے زکام میں مبتلا کر دیتے ہیں،ان میں سے صرف 4 وائرس ہی موسمی فلو کا سبب بنتے ہیں۔
بہت سے افراد جنھیں ٹھنڈ لگ جاتی ہے تو وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ انھیں فلو ہو گیا ہے،ماہرین بھی اس فرق سے متعلق یکساں بات کرتے ہیں،جب کہ فلو کی حالت میں مریض کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی ٹرک نے اس کو ٹکر مار دی ہو۔تنفس اور عام نزلے زکام سے تعلق رکھنے والے وائرسوں کی نسبت انفلوئنزا کے خراب اثرات پڑنے پر عام طور پر مریض بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے،اس کے سر میں درد ہوتا ہے اور اُس کو جسم ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

فلو کی نمایاں علامتوں میں بخار،سر اور جسم میں درد،حلق میں خراشیں،ناک کی نسیجوں کے جوف کا ورم (SINUS)،کھانسی اور چھینکیں وغیرہ شامل ہیں۔چھوٹے بچوں میں ایک علامت ظاہر ہوتی ہے اور وہ ہے کان کے تعدیے،جب کہ بڑے بچوں کی علامتوں میں اسہال اور قے وغیرہ شامل ہیں۔وہ کیس جو شدت اختیار کر لیتے ہیں،ان میں سب سے زیادہ عام نمونیے کی پیچیدگی ہے۔
فلو نمونیے کی خاص علامت میں سانس میں دقت (خاص طور پر اس وقت جب شدید محنت کی جاتی ہے)شامل ہے ،ایسی کیفیت میں غیر معمولی طور پر سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق یہ علامت بچوں میں زیادہ نظر آتی ہے اور بعض اوقات ان کی کمر یا سینے میں بھی درد ہوتا ہے۔
کووڈ۔19 کی علامتیں کون سی ہوتی ہیں؟اصل میں کووڈ۔19 کو پہچاننا آسان بھی نہیں ہے،جتنا لوگ سمجھتے ہیں،اس لئے کہ یہ ایک پیچیدہ مرض ہے۔
اس میں علامتیں زیادہ اور مختلف ہوتی ہیں اور بعض اوقات پیچیدگی بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ان میں سے زیادہ علامتیں فلو سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔بہت زیادہ عام علامتوں میں تیز بخار(جس میں بعض اوقات سردی لگتی ہے)،خشک کھانسی اور تھکن شامل ہیں۔صرف ایک علامت ایسی ہے،جو واقعی دونوں تعدیوں میں فرق پیدا کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کووڈ۔19 کے شکار بہت سے مریض اچانک قوت شامہ، یعنی سونگھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں،اس لئے نہیں کہ ان کی ناک فلو سے بند اور متاثر ہوتی ہے،بلکہ وہ کافی اور پیاز کی تیز خوشبوؤں کو بھی نہیں پہچان پاتے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں مبتلا تمام مریضوں کو قوت شامہ ختم نہیں ہوتی۔

ایک تحقیق کے مطابق 87 فیصد مریضوں کی مذکورہ قوت جاتی رہتی ہے،یعنی وہ سونگھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔وہ علامتیں جو اتنی عام نہیں ہوتیں،ان میں حلق میں خراشیں،بلغم سے جکڑا ہوا سینہ،بہتی ہوئی ناک،قے،اسہال،معدے میں درد اور تھکن کے بعد سانس کا پھولنا شامل ہیں۔کچھ مریضوں کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور ان میں کھجلی بھی ہوتی ہے ،جب کہ بعض کی آنکھوں میں سرخی پیدا ہو جاتی ہے اور ہاتھ یا پاؤں کی انگلیوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں،لہٰذا انھیں کووڈ انگلیوں والا مریض کہا جاتا ہے۔
زیادہ خطرناک علامتیں،جن میں طبی امداد کی ضرورت پڑتی ہے وہ یہ ہیں:سانس میں شدید تکلیف،سینے میں شدید درد یا دباؤ،نیلے ہونٹ یانیلا چہرہ،سیدھے سادے سوالات کے بے ربط اور اُلجھے ہوئے جوابات اور بے ہوشی کی کیفیت۔
بیماری کی خوف ناکی میں اس طرح بھی اضافہ ہو سکتا ہے کہ یہ خون میں تھکے(CLOTS) پیدا کرنے اور ناکاری قلب کا سبب بھی بن سکتی ہے،حتیٰ کہ کچھ مریضوں کے کیسوں سے ایسے غیر واضح آثار بھی ملے ہیں،جن کے بارے میں ڈاکٹروں کو شبہ تھا کہ ان کے مرض کی انتہائی کاری قلب پر ختم ہو گی۔
بچوں میں کووڈ۔19 کی علامتیں کونسی ہوتی ہیں؟بچے عام طور پر کووڈ سے اتنے زیادہ متاثر نہیں ہوتے،ان میں ایک دو علامتیں ہی ظاہر ہوتی ہیں اور پھر وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔بہت چھوٹے بچوں کے لئے کووڈ۔19،فلو کی نسبت کم خطرناک سمجھا جاتا ہے۔بچوں میں بھی علامتیں بالغ افراد کی علامتوں جیسی ہوتی ہیں،حالانکہ والدین کو اسی وقت ہوشیار ہو جانا چاہیے ،جب بچوں کی ناک بہنے لگے،آنکھیں سرخ ہو جائیں اور وہ تھکن سے بے حال نظر آئیں۔
ان تمام علامات کی بنیاد طبیعت کی خرابی ہی ہوتی ہے۔خطرناک علامات میں سانس لینے میں دشواری،نیلے ہونٹ،بیدار ہونے میں مشکل،پیٹ میں شدید درد اور مشروبات وغیرہ پینے میں دقت شامل ہیں۔اگر ان میں سے کوئی ایک علامت بھی ظاہر ہو تو بچے کو فوراً ڈاکٹر کو دکھائیں۔بعض کیسوں میں بچے ایسی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کی قوت مدافعت انتہائی فعال ہو جاتی ہے اور ایسی حالت میں ان کے جسم کا کوئی عضو ناکارہ ہو سکتا ہے،لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

Browse More Healthart