Daarh Ke Dard Ka Ajeeb O Ghareeb Ilaaj - Article No. 2459

Daarh Ke Dard Ka Ajeeb O Ghareeb Ilaaj

داڑھ کے درد کا عجیب و غریب علاج - تحریر نمبر 2459

میں آج تک اس بات پر حیران ہوں کہ اس پتے میں خدا جانے کس قسم کی کشش تھی کہ اُس کی بُو سے کیڑا فوراً اس کی طرف کھینچا چلا آیا

منگل 7 جون 2022

مسعود سید حیدرآبادی
میں آج سے پندرہ برس قبل ریاست حیدرآباد دکن کے ایک ضلع کریم نگر میں رہتا تھا۔وہاں اس دوران میں میری ایک داڑھ میں شدید قسم کا درد رہنے لگا۔داڑھ کے قریب گوشت کا لوتھڑا متورم ہو کر لٹک گیا۔ابتداء میں وقتاً فوقتاً درد محسوس ہوتا تھا،لیکن اس کے بعد اس درد نے تسلسل اختیار کر لیا اور ساتھ ہی شدت بھی۔
پھر تو نہ دن کو چین نصیب ہوتا اور نہ رات کو نیند،ہر دم اور ہر لمحہ بے کلی کی سی کیفیت رہتی۔پہلے تو ڈاکٹری علاج جاری رہا،لیکن بے سود،درد میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ڈاکٹر صاحب کا مشورہ تھا کہ ہمارے پاس تو داڑھ کے درد کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ داڑھ کو اکھیڑ دیا جائے،لیکن مجھے یہ بات منظور نہ تھی،کیونکہ ان ڈاکٹر صاحب کی تجویز اس مثل کے مصداق تھی کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،یعنی نہ داڑھ رہے گی نہ درد رہے گا،مگر میں چاہتا تھا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے،یعنی داڑھ بھی سلامت رہے اور درد بھی ختم ہو جائے۔

(جاری ہے)


جس مکان میں ہم رہتے تھے،اُس کے مالک نے ہمیں مشورہ دیا کہ قصبہ کتہ پلّی کے نزدیک ایک دھیڑ رہتا تھا۔وہ ایک پتے کے ذریعے داڑھ کا کیڑا نکال دیتا ہے۔انھیں بھی ایسی تکلیف تھی،لیکن اس دیسی معالج کے علاج کے بعد انھیں آرام آ گیا تھا۔دھیڑ دکن کے ہندؤں کی ایک نیچ ذات ہے،جو اکثر جنگلوں کے قریب رہتے ہیں اور اکثر جنگلی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے ہر قسم کی بیماریوں کا علاج کر لیتے ہیں۔

ہم نے مالک مکان کے ذریعے اس دیسی معالج کو اطلاع دے کر دریافت کیا کہ ہم تمہارے پاس علاج کے لئے آئیں یا تم خود شہر آ جاؤ گے۔اُس نے جواباً کہلا بھیجا کہ میں علاج معالجے میں روزانہ اس قدر مصروف رہتا ہوں کہ مجھے زیادہ فرصت نہیں ملتی،اس لئے آپ ہی پرسوں فلاں ندی کے دوسرے کنارے تاڑ کے درختوں کے جھنڈ کے پاس جب سورج ٹھیک سر پر ہو تو آ جائیں۔
اس ندی کے آس پاس میلوں تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا۔ندی تک پہنچنے کے لئے پکی سڑک تو تھی نہیں،ہاں البتہ بیل گاڑی کا کچا راستہ ضرور موجود تھا۔چنانچہ وہاں کے رواج اور موقع کے مطابق بیل گاڑی کا انتظام کروا دیا گیا۔بیل گاڑی پر سوار ہو کر میں اور میرے عزیز و اقارب اُس معینہ مقام پر ندی کے کنارے پر پہنچ گئے۔ہمیں وہاں معالج کا کچھ دیر تک انتظار کرنا پڑا،کیونکہ ہم سورج کے ٹھیک سر پر آنے سے کچھ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔

بالآخر وہ معالج ندی کے دوسرے کنارے پر ہمیں آتا دکھائی دیا۔اُس کے جسم پر کوئی قمیض نہ تھی۔سفید دھوتی اُس نے ہندوانہ طرز پر باندھی ہوئی تھی۔دکن کے ہندو دھوتی اس طرز پر باندھتے تھے کہ جس سے پاجامے کے دو پائنچوں کی طرح دھوتی کے دو حصے ہو جاتے تھے،جس سے چلنے پھرنے میں بہت سہولت رہتی تھی۔معالج کے سر پر ہندوانہ طرز کی پگڑی بھی بندھی ہوئی تھی۔
اُس نے ایک ہاتھ میں ایک پودے کی پتوں والی ٹہنی پکڑی ہوئی تھی۔ان دنوں اس ندی کا پانی اُترا ہوا تھا۔اس نے پیدل چل کر ندی پار کی اور ہمارے پاس پہنچتے ہی دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا۔پھر پوچھا کہ آپ میں سے کس کی داڑھ میں تکلیف ہے؟اس پر میں آگے بڑھا اور کہا کہ میری داڑھ میں تکلیف ہے۔اُس نے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔میں بیٹھ گیا اور منہ کھول کر دائیں طرف کی داڑھ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس میں شدید درد ہے۔

اُس نے میرے آگے ایک سفید رنگ کا کپڑا بچھا دیا اور مجھے زور زور سے کھانسنے کے لئے کہا۔اُس کے کہنے پر میں کھانسنے لگا۔اس پر وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی ٹہنی کے کچھ مسلے ہوئے پتے میرے دانتوں کے نزدیک لے گیا۔مسلے ہوئے پتے میرے دانتوں کے قریب پہنچنے کی دیر تھی کہ اسی لمحہ گلابی رنگ کا ایک کیڑا،جس کا منہ اور پیٹ سیاہی مائل معلوم ہوتا تھا،تلملاتا ہوا میرے منہ سے نکل کر سامنے بچھے ہوئے سفید کپڑے پر آ گرا۔
اس معالج نے مجھے بار بار زور زور سے کھانسنے کی تاکید کی،تاکہ دوسرے کیڑے اگر منہ میں موجود ہوں تو وہ بھی گر پڑیں،لیکن میرے بار بار کھانسنے پر مزید کیڑے نہ گرے۔تب اُس نے ایک پتا مسل کر میرے منہ میں درد والی داڑھ پر رکھ دیا،اس کے بعد سے آج تک میری داڑھ میں کبھی درد نہیں ہوا۔
اُس دیسی معالج کے لائے ہوئے پتے 5 کے ہندسے کی شکل کے تھے۔
ان کا مزہ کڑوا تھا۔میں نے اُس سے اس پتے کا نام دریافت کیا۔اُس پر اُس نے جواباً کہا کہ صاحب!اگر آپ جیسے لوگوں کو بھی اس کا نام معلوم ہو گیا تو آپ ہمارے پاس علاج کے لئے کیوں کر آ سکیں گے؟اور ہمارا بھوکا پیٹ کس طرح بھر سکے گا؟اس معالج نے اس علاج کے کچھ پیسے لیے اور جس سمت سے آیا تھا،اس سمت ہنسی خوشی چلا گیا۔میں آج تک اس بات پر حیران ہوں کہ اس پتے میں خدا جانے کس قسم کی کشش تھی کہ اُس کی بُو سے کیڑا فوراً اس کی طرف کھینچا چلا آیا۔

Browse More Healthart