Gas Ka Marz Pareshani Main Mubtala Kar Sakta Hai - Article No. 1900

Gas Ka Marz Pareshani Main Mubtala Kar Sakta Hai

گیس کا مرض پریشانی میں مبتلا کر سکتا ہے - تحریر نمبر 1900

بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ گیس معدے میں پیدا ہو کر دماغ پر چڑھ جاتی ہے۔

پیر 13 جولائی 2020

نظام ہضم میں گیس کے بارے میں لوگ بہت سے خدشات میں مبتلا ہیں۔بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ گیس معدے میں پیدا ہو کر دماغ پر چڑھ جاتی ہے۔قلب پر دباؤ ڈال کر گھبراہٹ اور اختلاج کا باعث بن جاتی ہے۔بلڈ پریشر کو بڑھا دیتی ہے۔بے ہوشی کے دورے گیس کی وجہ سے پڑتے ہیں اور بینائی اور سماعت کی کمزوری کی وجہ بھی تبخیری ہی ہے۔آئیے․․․!جائزہ لیتے ہیں کہ ”گیس“پر لگائے گئے یہ الزامات کہاں تک درست ہیں اور ہم گیس کی شکایت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں․․․․؟
یہ بات تو آپ کے علم میں ہو گی کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں اس کے ہضم ہونے کا عمل ہمارے منہ سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔
غذا کے چبائے جانے کے دوران مخصوص غدود کی رطوبت غذا میں شامل ہو کر نشاستہ کو شکر میں بدل دیتی ہے۔

(جاری ہے)

دانت،غذا کو اچھی طرح چبا کر باریک کر دیتے ہیں۔غذا اب معدے میں پہنچتی ہے جہاں ہاضم رطوبات اور تیزاب مل کر اسے سادہ اجزاء میں بدلتے ہیں۔اس عمل کے دوران گیس پیدا ہوتی ہے جو عام طور پر ڈکار کی شکل میں خارج ہو جاتی ہے۔بعض صورتوں میں یہ گیس زیادہ مقدار میں بننے لگتی ہے یا جتنی گیس بن رہی ہوتی ہے وہ کسی سبب کی بنا پر جسم سے خارج نہیں ہو سکتی،نتیجے میں یہ گیس پیٹ میں جمع ہو جاتی ہے اور مریض پریشانی کی صورت میں شفا خانے کا رخ کرتا ہے یا اپنی مرضی سے کوئی علاج خود ہی کرنے لگتا ہے۔

گیس جن وجوہ کی بنا پر زیادہ مقدار میں بننے لگتی ہے۔وہ حسب ذیل ہیں۔
کھائی جانے والی غذا درست طریقے پر پکی ہوئی نہ ہو،ہاضمہ پر بوجھ ڈالنے والی ہو یا باسی ہو گئی ہو۔
غذا کو ٹھیک طرح چبایا نہ جائے یا اسے اتنی دیر تک منہ میں ٹھہرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے کہ منہ کی رطوبت اس پر اثر انداز ہو سکے یا جلد جلد کھایا جائے،یا پھر کھانے کے دوران میں جی بھر کے باتیں کی جائیں اور قہقہے لگائے جائیں۔
آخر الذ کر تینوں افعال کے باعث کھاتے ہوئے بہت سی ہوا بھی پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔
معدہ اپنا کام صحیح طور پر انجام نہ دے رہا ہو خواہ اس کی وجہ معدے کی اپنی کمزوری مثلاً معدے پر ورم آنا یا اس میں ہاضم رطوبتوں کا کم یا زیادہ بننا۔آپ خود معدے کو مشکل میں ڈال دیں یعنی وقت پر کھانا نہ کھائیں یا ایک غذا کے ہضم ہونے سے پہلے دوسری غذا معدے میں پہنچا دیں۔

غذا جب معدے سے چھوٹی آنت میں داخل ہو رہی ہو تو اس پر مخصوص رطوبتیں مطلوبہ مقدار میں اثر انداز نہ ہوئیں یا جس غذا کو منہ یا معدے میں ٹکڑے ٹکڑے ہونا چاہیے تھا وہ عمل ٹھیک طرح نہ ہو سکا۔
فضلہ کسی وجہ سے آنتوں میں زیادہ دیر تک رُکا رہے۔ایسی صورت میں بھی گیس زیادہ بنتی ہے اور گیس کے خارج ہونے میں رکاوٹ میں پیدا ہو کر پیٹ پھولنے لگتا ہے۔
ایسا عام طور پر قبض کے مریضوں میں ہوتا ہے۔
نچلی آنت کے امراض مثلاً بواسیر وغیرہ بھی گیس کے خارج ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
محنت مشقت،کھیل کود اور ورزش یا چہل قدمی سے”گریز“کرنے والے افراد بھی گیس کے عارضے میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ادھیڑ عمر لوگوں میں گیس زیادہ بننے لگتی ہے۔
زیادہ وزن کے حامل افراد میں بھی گیس زیادہ بننے کی شکایت عام دیکھی گئی ہے۔

ان لوگوں کو بھی معدہ بھی تیزابیت بڑھ جانے کی شکایت رہتی ہے جو بہت متفکر اور پریشان رہتے ہیں۔زیادہ تیزابیت کی وجہ سے بھی زیادہ گیس بننے لگتی ہے۔اسباب کے لحاظ سے گیس کے مرض کی علامات مختلف ہیں۔اگر معدے میں تیزابیت بڑھ جائے تو مریض کو بھوک زیادہ لگتی ہے اور بھوک برداشت بھی نہیں ہوتی ۔کھانے سے پہلے مریض کا پیٹ پھول جاتا ہے۔سینے میں جلن ہونے لگتی ہے ۔
کچھ کھانے سے آرام ملتا ہے۔اس کے مقابلے میں جن لوگوں کے معدے کمزور ہوں اور ان میں ہاضم رطوبتیں کم مقدار میں بن رہی ہوں انہیں بھوک کم لگتی ہے۔کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے اور گیس بنتی ہے۔
اگر جگر کمزور ہوتو کھانے کے دو تین گھنٹے بعد پیٹ میں بھاری پن کا احساس ہوتا ہے اور گیس بننے لگتی ہے۔بعض افراد کے جسموں میں صفراء(پتے سے نکلنے والی رطوبت)کم بنتا ہے۔

اگر گیس،قبض کی وجہ سے بنے تو اجابت کے بعد مریض سکون محسوس کرتا ہے اور اگر بواسیر اس کا سبب ہے تو اجابت کے وقت تکلیف ہو سکتی ہے اور رفع حاجت کے بعد بھی یہ احساس ہوتا رہتا ہے کہ ابھی فضلہ آنتوں میں موجود ہے۔اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا پیٹ میں بننے والی گیس جسم کے کسی بھی حصہ میں پہنچ کر کسی بھی عضو کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے․․․؟
یہ بات کسی حد تک درست ہے!لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معدے میں بننے والی گیس کسی راستے سے دماغ تک پہنچ سکتی ہے،گھٹنوں میں پہنچ کر درد پیدا کر سکتی ہے یا گردن کے درد کا باعث بن سکتی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جسم کے مختلف اعضاء کا دماغ سے رابطہ قائم رکھنے والے بہت سے اعصاب پر بھی گیس دباؤ ڈالتی ہے اسی دباؤ کے رد عمل کے طور پر جسم کے کسی دوسرے حصہ میں درد ہونے لگتا ہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ گردے کا درد کمر اور پتے کا درد آخری دائیں پسلی کے نیچے ہوتا ہے لیکن گردے کے درد کی ٹیس رانوں تک محسوس ہوتی ہیں۔پتے کی تکلیف دائیں شانے تک میں محسوس کی جاتی ہے جبکہ ان حصوں میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔اسی طرح پیٹ سے گزرنے والی خون کی بڑی رگوں پر جب گیس کا دباؤ پڑتا ہے تو گھبراہٹ،وحشت یا اختلاج کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

گیس کے ہر مریض کے لئے بازار میں فروخت ہونے والے چورن،مسکچریا گولیاں فائدہ مند نہیں ہو سکتیں۔ان سے وقتی طور پر فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مرض کا مستقل علاج نہیں ہے۔اگر گیس،تیزابیت بڑھ جانے یا زخم معدہ کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے تو خود تجویز کردہ یہ دوائیں فائدہ پہنچانے کی بجائے تکلیف میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہیں۔گیس کے علاج میں غذا کے پکانے کے طریقوں اور کھانے کے انداز پر توجہ دینی چاہیے۔
ورزش اور چہل قدمی کی بھی بڑی اہمیت ہے۔کھانے کے دوران زیادہ گفتگو نہ کی جائے۔وقت مقررہ پر کھانا کھایاجائے۔تیزابیت معدہ کے مریض دو کھانوں کے درمیان کوئی ہلکی چیز مثلاً کیلا،کھیرا،یا دودھ لے سکتے ہیں۔کھانے کے دوران یا فوراً بعد پانی نہیں پینا چاہیے۔بھر پور نیند اور ذہنی سکون پر بھی توجہ دی جائے۔

Browse More Healthart