Hejaan Aap Ke Jism Par Kaisay Assar Andaaz Hota Hai - Article No. 1295

Hejaan Aap Ke Jism Par Kaisay Assar Andaaz Hota Hai

ہیجان آپ کے جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ - تحریر نمبر 1295

آپ نے اکثر پڑھا ہوگا۔ورزش اچھی عادت ہے۔ ڈاکٹر صبح و شام ورزش اور اچھل کود کی افادیت پر لیکچر دیتے ہیں۔ مریضوں کو اسے اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور لالچ میں لمبی عمر کا سبز باغ دکھاتے ہیں

جمعہ 20 اپریل 2018

آپ نے اکثر پڑھا ہوگا۔ورزش اچھی عادت ہے۔ ڈاکٹر صبح و شام ورزش اور اچھل کود کی افادیت پر لیکچر دیتے ہیں۔ مریضوں کو اسے اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور لالچ میں لمبی عمر کا سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ورزش کے لیے شدید اصرار کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے جسم میں دوران خون میں تیزی اور دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سانس تیز چلنے سے پٹھوں کو زیادہ مقدار میں آکسیجن ملتی ہے جس سے ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب توہیجان اور دباوٴ کی حالت میں بھی ہوتا ہے۔ جس کی علامات کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ تو پھر آخر ڈاکٹر ہیجان یا د باؤ اختیار کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے۔ وہ مریضوں کو اس سے اجتناب کا مشورہ کیوں دیتے ہیں؟ ماہرین کے مطابق اس اختلاف کی بنیادی وجہ پیدا ہونے والی علامتوں کا ردعمل ہے۔

(جاری ہے)

جب ہم ورزش میں مصروف ہوتے ہیں تو ہمیں زیادہ آکسیجن اورخون کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ اس کارروائی کو جاری رکھا جا سکے۔

جسمانی حالت میں تناوٴ کی بنا پر یہ علامات بدن پر کوئی ردعمل نہیں چھوڑتیں کیونکہ یہ سب کچھ قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کو شد ید درجے کا جسمانی خطرہ لاحق ہو اور اسے فی الفور اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگنے کی ضرورت ہو تو خون کابڑھا ہوا دباوٴ اس کے لئے معاون ثابت ہوگا اور خون کی تیز روانی اس کی حرکت میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ خون میں موجود شکر کی مقدار بڑھنے سے عضلات کو زیادہ توانائی ملتی ہے۔
جسے تیزی سے حرکت کے دوران خرچ کر دیا جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جسم میں ہنگائی حالت کے خلاف عمل تو شروع ہوا تھا، لیکن اس نے اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا اور جو تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں، وہ تھوڑی ہی دیر میں معدوم ہوگئیں۔ ہیجان کی یہی علامات جسم میں اس وقت بھی نمودار ہوتی ہیں۔ جب انسان کسی ٹریفک جام میں پھنسا بیٹھا ہوا اور اس کے جہاز کا وقت ہو چکا ہو۔
لیکن اس صورتحال میں یہ ہیجائی علامات کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے بے حد نقصان دہ رہتی ہیں۔ تصور کیجئے کہ آپ گاڑی میں پھنسے بیٹھے ہیں۔ آپ کے چاروں طرف دھواں اور گاڑیوں کا شور ہے۔ گرمی کے مارے آپ کا پسینہ بہہ رہا ہے۔ ادھر ایسے ماحول میں آپ کے ہیجان نے رنگ دکھانا شروع کردیا۔ آپ کی سانس پھولنے لگے، دل یکبارگی دھڑکنے لگے ہاتھوں میں پیروں میں سنسناہٹ ہونے لگے اور تمام اندرونی غدودوں نے رطوبتیں خارج کرنی شروع کردیں۔
تو کیا اندرونی کشمکش آپ کے لئے سودمند رہے گی؟ یقین نہیں۔ آپ کے جسم میں ہیجاہوتے رہیں گے جنہیں آپ کسی طرح بھی خرچ نہیں کر سکتے۔ حتی کہ ایک نوبت اسی آئے گی کہ ان کی مقدار آپ کی برداشت سے باہر ہوجائے گی اور آپ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ جن میں سرفہرست دل کی بیماریاں ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ انسان صرف ہنگامی صورت حال میں سی ہیجان کا شکار ہو۔
زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جب ہر چیز اپنے معمول کے مطابق رواں ہوتی ہے۔ پھر بھی ایک فرد پریشان ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال کی دوست،غمگسار چاہنے والے محبت کرنے والے کا بچھڑنا ہے۔ یقینا یہ ایک اندوہناک سانحہ ہوتا ہے۔ لیکن سائنسدان کے مطابق اس کے مرتب کردہ اثرات اور بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ افسردہ اور مایوس فردمیں ایڈرنل غدر( Adernal glands )بڑی مقدار میں ایک رطوبت (Corticosteriod) خارج کرتا ہے، جس سے جسم میں ٹیومر اور دیگربیماریوں کے خلاف لڑنے والے قدرتی دفای خلیوں ( Killer cells) کی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی ہو جاتی ہے۔
احساس تنہائی بھی کسی شخص کا پورا اندرونی مدافعتی نظام تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ مایوسی ، افسردگی کی حالت میں فرد کو توانائی کی نسبتاََ زیادہ ضرورت پیش آتی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے دوران منہ میں موجود لعاب (تھوک )میں شامل مدافعتی جراثیم عناصر( Virus fighting antibodies) تشویشناک حد تک کم ہوجاتے ہیں۔ ہماری کسی بھی قسم کے ذہنی دباوٴ سے نمٹنے کی صلاحیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم پچیدہ صورت حال پر کتنا قابو پاسکتے ہیں۔
جانوروں میں ذہنی دباوٴ پیدا کرنے والے عوال سے نمٹنے کی صلاحیت بالکل نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ ان کا سدباب کرنے کے بجائے ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے چند مختلف اقسام کے جانوروں کو باندھ کر بجلی کے جھٹکے پہنچائے گئے۔ ابتداء میں انہوں نے رہائی کے لئے کافی جدوجہد کی اور چیخ و پکار مچائی۔ لیکن پھر فرار کا کوئی راستہ نہ پا کرہمت ہار دی اورتمام کوششیں ترک کر دیں۔
اپنی شکست کے بعد وہ سکون سے بجلی کے جھٹکے برداشت کرتے رہے۔حتیٰ کہ جب انہیں رہائی کے لئے راستہ دیا گیا تو بھی وہ اپنی جگہ ساکت رہے اور فرار کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس قسم کے ایک دوسرے تجربے میں چوہوں کے دو گروہوں کو بیک وقت یکساں مقدار میں ٹیومر پیدا کرنے والے خلیوں کے انجکشن لگائے گئے۔ اس کے بعد ایک گروہ کو قابل برداشت جب کہ دوسرے کو برداشت سے زیادہ بجلی کے جھٹکے پہنچائے گئے بعد ازاں جونتائج سامنے آئے انہوں نے ڈاکٹروں کے اندازوں کی توثیق کردی۔
جن چوہوں کو نا قابل برداشت بجلی کے جھٹکے پہنچائے گئے تھے، ان میں ٹیومر بڑھنے کا تناسب، قابل برداشت بجلی کے جھٹکوں والے گروپ کے مقابلے میں تقریبا دگنا تھا۔ بجلی کے جھٹکوں سے ان کے ذہنی دباوٴ میں اضافہ ہوتا تھا جس سے ان کے جسم میں جراثیم کے خلاف مدافعتی خلیوں کی کمی واقع ہوگئی۔ نتیجہ ٹیومرزدہ خلیوں کو آزادی سے بڑھنے کا موقع ملا اور انہوں نے دگنی رقتار سے صحت مند خلیوں کو بیمار کردیا۔
ایساہی ایک تجر بہ جانوروں کے بعد انسانوں پر بھی کیا گیا۔ اس تجربے کے دوران دس صحت مند افراد کو ایک ایسے کمرے میں بند کر دیا گیا جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے اسپیکر لگے ہوئے تھے۔ اسپیکروں سے صبح وشام تیز آواز میں ایک مخصوص آوازنکلتی رہتی تھی۔ کمرے میں داخل ہونے سے قبل ان دس افراد کواسپیکروں پر چلنے والی آواز بند کرنے کا طریقہ کار سمجھا دیا گیا تھا جو خاصا طویل اور کیا تھا۔
پہلے دن وہ افراد جب اس شور سے بہت زیادہ تنگ آگئے تو انہوں نے اسپیکروں کو سمجھائے گئے طویل طریقہ استعمال کر کے بند کر دیا۔ لیکن دوسرے دن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اسپیکر بند کرنے کا طریقہ ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا۔ وہ اس ترتیب کو یادنہ کر سکے جو انہیں سمجھائی گئی تھی۔ سائنسدانوں نے واقع ہونے والی اس دماغی کمزوری کا تعلق بھی ذہنی دباوٴ یاہیجان سے جوڑا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن دس افرادذہنی دباوٴ کی شدت دوسرے دن کے مقابلے میں نسبتاََ کم تھی اور اس شدت میں اسپیکر بند کرنے کے بعد مزید کمی ہوگئی۔ لیکن دوسرے دن، جب وہ اسپیکر بند کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو انہوں نے اپنے آپ کو زیادمایوس بے یارومددگار، نا خوش اور دباوٴ کے تحت محسوس کیا۔ انہیں کیفیات نے ان کے ذہنی دباؤ میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ تجربہ ختم ہونے کے پینتالیس منٹ بعد بھی وہ اپنے آپ کو معمول کی حالت پر نہ لا سکے اور بہت دیر تک اپنے اوپر شدید اعصابی اورذہنی دباؤ محسوس کرتے ر ہے۔
اس انتہائی کیفیت کی بنیادی وجہ ایڈرنالین اور ینڈر ریکورٹیکوٹر ایک نامی غدودوں کی خارج کردہ رطوبتیں تھیں جن کی بڑی مقدار نے ان کے جسم میں بہت دیرتک ابتری مچائے رکھی تھی۔ یاد رہے کہ ایڈرنالین وہی غدود ہے جو ہنگامی حالات میں رطوبتیں خارج کر کے انسان کو ان سے نمٹنے کے قابل بناتا ہے اور جن کی زیادتی امراض قلب ، ٹیومر اور کینسر پر منتج ہوتی ہے۔

Browse More Healthart