Kayi Bimarion Ki Wajah Motapa - Article No. 1393

Kayi Bimarion Ki Wajah Motapa

کئی بیماریوں کی وجہ موٹاپا - تحریر نمبر 1393

موٹاپا کس کو پسند ہوتا ہے یہ نہ صرف ظاہری شخصیت کو تباہ کردیتا ہے بلکہ یہ امراض کی جڑ بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے ذیابیطس، بلڈپریشر، امراض قلب اور فالج سمیت لاتعداد بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ہفتہ 20 اکتوبر 2018

عبدالوحید ربانی
موٹاپا کس کو پسند ہوتا ہے یہ نہ صرف ظاہری شخصیت کو تباہ کردیتا ہے بلکہ یہ امراض کی جڑ بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس سے ذیابیطس، بلڈپریشر، امراض قلب اور فالج سمیت لاتعداد بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور یہ تو حقیقت ہے کہ موٹاپا ایک عالمی وباء بن چکا ہے اےک سروے رپورٹ کے مطابق موٹاپے سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔

نوجوان نسل اور بچوں میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ غیر صحت بخش خوراک اور ورزش کی کمی ہے۔ طبی ماہرین نے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ دس سال بعد ہر پانچ میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہو جائے گا۔گی۔ پاکستان کی نئی نسل میں موٹاپا تیزی سے پھیل رہاہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق نوجوان نسل اور بچوں میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ غیر صحت بخش خوراک اور ورزش کی کمی ہے۔

(جاری ہے)

طبی ماہرین کئی بیماریوں کی اضافے کی وجہ بڑھتے ہوئے وزن کو قراردیتے ہیں۔177 ممالک کا سروے کیا گیا اور اس کے بعد جو رپورٹ جاری کی گئی اس کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت موٹاپے اور وزن کی زیادتی کے شکار افراد کی تعداد تقریباً دوارب ہے۔ موٹاپے میں مبتلا افراد کی اکثریت کا تعلق امریکہ، چین اور بھارت میں ہے۔لیکن پاکستان میں بھی یہ مرض موجود ہے۔
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ کہنا قطعی طور پر غلط ہے کہ موٹاپے کا تعلق امیروں اور کھاتے پیتے طبقے سے ہے۔ کیونکہ، وزن کی زیادتی میں متوازن غذا ہی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک ا اور طرز زندگی بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم چین کی بات کرےں تو چین میں سماجی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے چین کے دیہی نوجوانوں میں موٹاپا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
دوسری جانب موٹاپے کی شکار خواتین کی شرح 6.4 فیصد سے بڑھ کر 14.9 تک پہنچ گئی ہے ۔

اس کے علاوہ مائیکرو نیشیا یا کا خط جو اوقیانوس کا سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر پر مبنی علاقہ ہے جو مغربی بحر الکاہل کے وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے شمال مغرب میں فلپائن، مغرب اور جنوب مغرب میں انڈونیشیا، پاپوا نوئے گنی اور میلایشیا اور مشرق میں پولینیشیا واقع ہے، میں بھی 38 فیصد مرد اور اس علاقے کی خواتین کی آبادی کا نصف حصہ موٹاپے کا شکار نظر آیا۔

طبی ماہرین کا کہناہے کہ موٹاپا لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ صحت مند زندگی گذارنے اور مستقبل میں مہلک امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سادہ اور متوازن خوراک استعمال کریں۔ سادہ طرز زندگی اپنائیں ، ہلکی پھلکی ورزش کو اپنے روزمرہ کے معمول کا حصہ بنائیں اور پریشانیوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کریں۔
ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہی کا زیادہ استعمال موٹاپا کم کرنے میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔

خوراک کو مناسب طریقے سے چبا کر نگلنا جسمانی وزن میں کمی کا آسان ترین نسخہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ سست روی سے کھاتے ہیں وہ زیادہ پانی بھی پیتے ہیں جس سے انہیں طبیعت سیر ہونے کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔اپنی غذا میں زیادہ پروٹین کا استعمال آپ کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت ہو گا ۔
اپنے جسمانی وزن میں کمی کیلئے کیلیوریز جلانے کی بجائے آپ غذا میں پروٹین سے بھرپور اشیاءکا استعمال زیادہ کریں۔ طبی ماہرین کے نزدیک یہ بھی کہا جاتا ہے گوشت، مچھلی، انڈے وغیرہ کا استعمال اس حوالے سے بہترین ہے کیونکہ یہ پروٹین سے بھرپور غذائیں ہوتی ہیں۔روزانہ ایک سیب کھانا ڈاکٹر کو دور رکھتا ہے مگر یہ موٹاپے سے بچاﺅ کے لیے بھی اہم ثابت ہوتا ہے۔
سبز رنگ کے سیبوں کا روزانہ استعمال نہ صرف پیٹ بھرنے کے احساس کو زیادہ دیر تک برقرار رکھتا ہے بلکہ یہ معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی تعداد بھی بڑھاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان سیبوں کے روزانہ استعمال سے صحت مند بیکٹریا کی تعداد بڑھتی ہے جو موٹاپے کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں

بچوں کو جلد سلانے کی عادت انہیں موٹاپے سے بچانے کا سب سے آسان اور سستا طریقہ ہے ۔

وزن کم کرنے کے اس طریقے کے بارے میں سن کر آپ حیران ہوجائےں گے کہ کسی کے ہاتھوں دل ٹوٹنے کے ایک ماہ کے اندر ہی خواتین کے وزن میں 2.26 کلوگرام کی کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر تعلق ٹوٹنے کے بعد خواتین ایک سال تک تنہا رہ کر گزار لیں تو ان میں موٹاپا اگر واقعی ہو ،تو اس میں 6 سے 7 کلو کی کمی ہوجاتی ہے۔ ایک بات تو ضرور کہی جا سکتی ہے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اگر کھانے پینے اور لائف سٹائل کا موجودہ رجحان جاری رہا توطبی مسئلے کی شکل میںایک اور چیلنج کا سامنے آنا ناگزیر بن جائے گا۔

Browse More Healthart