Kiya Ap Ki Umer 40 Saal Se Ziada Ho Gayi Hai? - Article No. 1765

Kiya Ap Ki Umer 40 Saal Se Ziada Ho Gayi Hai?

کیا آپ کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو گئی ہے․․․؟ - تحریر نمبر 1765

انسان کی زندگی کئی ادوار سے گزرتی ہے اور ہر دور کی اپنی خصوصیات اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔

جمعرات 26 دسمبر 2019

انسان کی زندگی کئی ادوار سے گزرتی ہے اور ہر دور کی اپنی خصوصیات اور اپنے مسائل ہوتے ہیں۔نوجوانی میں انسان کے پاس کئی اُمنگیں ،جذبے اور مقاصد ہوتے ہیں۔وہ کچھ بننا چاہتاہے۔کچھ حاصل کرنا چاہتاہے جس کے لیے وہ دن رات محنت بھی کرتاہے۔ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد زندگی میں ایک ایسا دور بھی آتاہے جب اس کی شخصیت میں تبدیلیاں واقع ہونے لگتی ہیں۔
اس کی ذہنی وجسمانی کارکردگی میں فرق آنے لگتاہے۔عام طور پر چالیس سال کی عمر سے انسان کی صحت،سوچ اور زندگی کے حالات میں تبدیلیاں زیادہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔خاص طور پر خواتین کے لیے زندگی کا یہ دور ان کی ذاتی زندگی اور صحت کے حوالے سے کئی مسائل بھی پیدا کر دیتاہے۔عمر کے ساتھ ہونے والی زندگی کی ان تبدیلیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

(جاری ہے)

اگر تھوڑا سمجھ داری سے کام لیا تو اس وقت کو زندگی کا حسین دور بھی بنایا جا سکتاہے۔

امریکہ میں خواتین کے لیے قائم ایک تھیر پی سینٹرکی ڈائریکٹر ایلیا موزرکا کہنا ہے کہ اکثر لوگ بیس اور تیس سال کی عمر میں سخت محنت کرتے ہیں۔جس کے باعث چالیس سال کی عمر تک پہنچنے پر انہیں لگنے لگتاہے کہ بس اب بہت ہو گیا۔اب خود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس عمر کو پہنچ کر کئی مرد و خواتین اضطرابی کیفیت اور ڈپریشن میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔

عموماً پیش آنے والے مسائل
سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے عام طور پر اس عمر میں لوگ ذہنی دباؤ میں مبتلاہونے لگتے ہیں۔
بچوں سے ان بن یا نااتفاقی۔
ملازمت میں ترقی نہ ہونا یا ریٹائرمنٹ قریب ہونے کا خوف۔
جسمانی اور ذہنی صحت کا کمزور ہونا۔
کسی دلی خواہش یا مقصد کا پورانہ ہونا۔

خواتین کی صحت پر اثرات
خواتین چالیس سال کی عمر کو پہنچتی ہیں تو ان میں کئی جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں،عمر کی چوتھی دہائی میں سن یاس(Menopause) یعنی ایام رکنے کا عمل ہو سکتاہے۔آج کل کے دور میں اس عمر کو پہنچنے پر کئی بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا سکتاہے جیسے،ذیابیطس ،بلڈ پریشر یا ہڈیوں کا کمزور ہوجانا۔ان مسائل کے باعث اکثر خواتین کی خوراک بھی متاثر ہوجاتی ہے۔
انہیں وقت پہ بھوک نہیں لگتی اور ان کا نظام ہضم کمزور ہونے لگتاہے۔
مسائل کے آسان حل!بیماریوں سے ڈریں نہیں۔
اس عمر میں جسمانی تبدیلیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ممکن ہے اس عمر میں تھکن زیادہ محسوس ہونے لگے،پہلے کی نسبت جلدی جلدی بیمارہونے لگیں۔بہتر ہو گاکہ بڑھتی عمر کے ساتھ اپنے معمولات میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں۔
طبیعت کو سنبھالنے کی کوشش کریں،کھلی ہوا میں نکلیں،ماحول تبدیل کریں،کسی دوست سے بات کریں تاکہ دھیان بٹے ۔ڈاکٹر کے مشورے سے تشخیصی ٹیسٹ کروائیں۔
میاں بیوی کا رشتہ دوستی کا
زندگی جس طرح آگے بڑھتی جاتی ہے۔میاں بیوی ،اپنے بچوں اور معاش وگھر کی ذمہ داریوں میں کھوکر ایک دوسرے کو وقت دینا کم کر دیتے ہیں۔چالیس سال عمر کو پہنچ کر میاں بیوی کے رشتے کو پھر سے مضبوط کیا جانا چاہیے۔
ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی زیادہ کوشش کریں۔
سماجی فلاح کے کاموں میں شرکت
لوگوں کا درد کم کرنے سے خود اپنا درد کم ہوتاہے ۔کوشش کی جائے کہ کسی ایسی مہم یا ایسے کام کا حصہ بنیں جو لوگوں کی فلاح وبہود کے لیے ہو۔اس سے نہ صرف ذہنی سکون ملے گا بلکہ معاشرے میں ایک مثبت کردار بھی ادا کیا جا سکتاہے۔

بچوں پر غصہ مت اتاریں
عمر کے اس دور میں عام طور پر لوگوں کی اپنے بچوں سے ان بن ہونے لگتی ہے۔یہاں ماں باپ اور اولاد دونوں کو ہی ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بچوں وقت بے وقت ڈانٹنے کے بجائے انہیں خود کو سمجھنے اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینے کا موقع دیا جائے۔
موبائل فون کو آرام دیں
کم از کم چھٹی والے دن کوشش کی جائے کہ آفس اور دفتری کاموں کے دباؤ سے دور رہیں۔
موبائل فون کا استعمال کم سے کم کردیاجائے۔کام کادباؤ کم کرنے کے لیے گھر والوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔ہو سکے تو ان کے ساتھ کسی سیر یا پکنک کا پروگرام بنایاجائے۔
صحت مند غذا اور ورزش
ہلکی پھلکی ورزش کوزندگی کا معمول بنالیاجائے۔صبح سویرے چہل قدمی سے بھی اعصابی سکون ملتاہے اور پورا دن اچھا گزرتا ہے۔
چٹ پٹے اور مرغن کھانوں کی جگہ سادہ صحت مند غذا لی جائے۔خوراک میں سبزیوں ،پھل اور پانی کا استعمال بڑھایاجائے۔
اپنوں کی مددلیں
مسائل پر لوگوں سے بات کرنے سے نہ صرف ذہنی سکون ملتاہے بلکہ اکثر اس سے مسائل کا حل بھی نکل آتاہے۔کسی قریبی شخص کے ساتھ بیٹھ کہ کھل کر بات کریں۔ضرورت پڑنے پر کسی تھیراپسٹ کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
زندگی کے ہر مرحلے میں ہی انسان کو مسائل اور کیفیات کے بارے میں بات کرنے کی ،انہیں سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے موقع پر اگر دوستوں کا تعاون مل جائے تو زندگی کا ہر دور خوبصورت اور پر سکون بنایا جا سکتاہے۔بس سوچنے کا طریقہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے!
ہارمونز میں عدم توازن
بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مرد وخواتین دونوں کے ہارمونز میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے جس کے باعث خواتین کے مقابلے میں مردوں کے پٹھے زیادہ جلدی ڈھیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
خواتین کے ہارمونز میں عدم توازن ہونے کی وجہ سے چہرے پر بال زیادہ نمایاں ہو سکتے ہیں،ایام کے نظام میں بھی تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں۔
میٹا بولزم کا سست ہونا
عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ میٹا بولزم سست ہو جاتاہے ۔تیس سال کی عمر میں اکثر مردو خواتین کے وزن میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتاہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس عمر میں آنے کے بعد ایسی خوراک لیتے رہتے ہیں جتنی وہ بیس سال کی عمر میں لے رہے تھے جب کہ تیس سال کی عمر میں لوگوں کو اتنی طاقت اور توانائی کی ضرورت نہیں رہتی جتنی کہ بیس سال کی عمر میں تھی۔
چونکہ میٹا بولزم سست ہو چکا ہوتاہے لہٰذا زائد چکنائی کو استعمال ہونے کا موقع نہیں مل پاتالہٰذا وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔
بیماریوں کا حملہ
ویسے تو کئی لوگ عمر کی تیسری دہائی کو بھی جوانی میں ہی شامل کرتے ہیں لیکن میڈیکل کی زبان میں یہ عمر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اب جسم کو مختلف بیماریوں سے لڑنے کے لئے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔
اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی کی تیسری دہائی میں موروثی بیماریاں جیسے(ذیابیطس ،ہائی بلڈ پریشر،دل کے امراض )زیادہ حملہ آور ہونے کا خدشہ رہتاہے ،چونکہ اس عمر کے بعد سے ہی لوگوں کی قوت مدافعت کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے لہٰذا ایسے افراد جو کسی پرانی چوٹ ،حادثہ موروثی بیماریاں یا ذہنی امراض میں مبتلاہوں انھیں اس عمر میں اپنی صحت(Health) کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔

جلد کی صحت
تیسری دہائی کے آخر تک پہنچنے پر سر اور چہرے کی کھال پر واضح نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں،جیسے بالوں کا تیزی سے گرنا،گنج پن،بالوں کا پتلا ہونا،چہرے پر جھریاں نمودار ہونا،چہرے کا رنگ گلابی نہ رہنا،چہرے پر جھائیں پڑنا،یہ وہ مسائل ہیں جو چالیس سال تک پہنچنے والے فرد کودر پیش ہو سکتے ہیں۔

ہڈیوں کا بھر بھرا ہونا
ہمارے ملک کی خواتین جس مسئلہ میں سب سے زیادہ مبتلاہوتی ہیں وہ ہے ہڈیوں کا بھر بھرا ہونا ۔اس مسئلہ کی وجہ کیلشیم اور وٹامن ڈی کا کم ہونا ہے۔ہرلڑکی کے ایام شروع ہوتے ہی آئرن اور کیلشیم سے بھر پور غذاؤں کا استعمال بڑھا دینا چاہئے کیونکہ پینتیس سال کی عمر تک پہنچنے میں ہڈیوں کے بھر بھرے ہونے کا عمل تیز ہو جاتاہے۔

دانتوں کی صحت
عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ جہاں قوت میں کمی آتی ہے وہاں منہ میں پیدا ہونے والے لعاب میں بھی کمی آجاتی ہے ،چونکہ یہ لعاب منہ کے اندر جراثیم اور تیزاب کو بننے سے روکتاہے اور جب لعاب کم ہوتاہے تو مسوڑھے اور دانتوں کے مسائل میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتاہے۔زندگی کے چالیس سال گزرنے کے بعد عموماً انسان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہتی ،ماہرین کے مطابق چالیس برسوں کے بعد انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،اس کے علاوہ نیند میں کمی اور جسم پر مختلف بیماریوں کا حملہ ہانا شروع ہو جاتاہے۔

دھوپ کے چشموں کا استعمال
لوگ عموماً سن گلاسز کا استعمال دھوپ سے محفوظ یا فیشن کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن چالیس سال یا اس سے زائد عمر ہونے کے بعد دھوپ کا چشمہ ضرورت بن جاتاہے،سورج کی شعائیں آنکھوں اور ان کے گرد موجود اسکن کو نقصان پہنچاتی ہیں جس سے جلد کے سکڑنے کا خطر ہ بڑھ جاتاہے۔
فائبر کا استعمال
چالیس سال کی عمرکے بعد انسانی میٹا بولزم سلو ہوجاتاہے،اور خوراک کی زیادتی کے بعد جسم پر موٹاپے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں،لہٰذا غذا کالازمی خیال رکھا جائے اور ایسی خوراک استعمال کی جائے جن میں فائبر اور پروٹین کی مقدار زیادہ ہو،اس کے علاوہ گوشت کم کھایاجائے۔

سگریٹ نوشی ترک کردیں
سگریٹ پینے کی عادت ہے تو چالیس سال کی عمر میں اسے ترک کر دیا جائے،ایسا نہ کرنا د ل کے لیے خطر ناک ہو سکتاہے ،جس سے ہارٹ اٹیک کے خطرات بڑھ جاتے ہیں ،جبکہ سگریٹ کا زیادہ پینا جسمانی طور پر کمزور کرتاہے۔
ورزش
روزانہ کی روٹین سے ہٹ کر کچھ وقت ورزش کے لیے بھی نکالیں ،ورزش کرنے کے لیے جم جانے کی ضرورت نہیں بلکہ پارک وغیرہ جانے کا پروگرام بنایا جائے یا گھر پر ہی ہلکی پھلکی ورزش کی جائے۔

بھر پور نیند
لمبی اور بھر پور نیند صحت کے لیے ضروری ہے،لیکن چالیس سال کے بعد نیند ذرا مشکل سے آتی ہے اس کے پیچھے بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے گھریلو اور کاروباری مسائل وغیرہ،قوت مدافعت کی مدد کرنے کے لیے کوشش کریں کہ تقریباً آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند لیں۔

Browse More Healthart