Maholiyati Aloodgi - Article No. 2215

Maholiyati Aloodgi

ماحولیاتی آلودگی - تحریر نمبر 2215

اس ترقی یافتہ اور سائنٹیفک دور میں انسان کو نہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا

منگل 3 اگست 2021

عبدالرحمن
انسانی صحت کیلئے کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری ہے لیکن اس ترقی یافتہ اور سائنٹیفک دور میں انسان کو نہ صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا۔اس جدید ترین دور میں انسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔اس آلودہ زندگی سے انسان نہ صرف بے شمار بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے بلکہ اسے ایک فعال زندگی گزارنے کی بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
کیمیائی طور پر تیار کی گئیں اشیاء اور دیگر مختلف قسم کے کچرے کو جب ملایا جاتا ہے تو اس سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے اور اس سے نکلنے والی زہریلی گیس اور ذرات فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کینسر، پھیپھڑوں کے علاوہ گلے کی پیچیدہ بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

ماہرین ماحولیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی بڑی آبادی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہتی ہے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ان ممالک میں مختلف اقسام کی جسمانی اور ذہنی بیماریاں جنم لیں گی جو کسی بھی صحت مند معاشرے کے لئے مسائل کا انبار ہے۔
تحقیقات کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے بے شمار زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
بھارت،پاکستان اور انڈونیشیا کے ممالک جو دنیا کا تقریباً پانچواں حصہ بنتا ہے جو اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ماہرین کے مطابق زہریلا مادہ خون میں جذب ہونے سے رحم مادر میں پرورش پانے والے بچوں کو مسائل پیش آسکتے ہیں جو بچوں کی ذہنی نشوونما کے لئے خطرہ ہیں۔میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ سٹیون بیرٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 سے 10 برسوں کے اعداد و شمار سے ثابت ہوا ہے کہ فضائی آلودگی سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

سڑکوں پر رواں دواں دھواں اُڑاتی ہوئی گاڑیاں فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث ہیں۔ہمارے یہاں روش چل پڑی ہے کہ ہر معاملے میں گاڑی کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ان سڑکوں کے اردگرد اور درمیان میں سبزہ اور ماحول دوست پودوں کی کمی ہے۔علاوہ ازیں گاڑیوں کی موزوں مینٹیٹس کا نہ ہونا بھی ماحول کی خرابی کا سبب ہے۔بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کیے جانے والے ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو لوگوں کو وقت سے پہلے ہی موت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لئے قدرتی ذرائع استعما ل کیے جائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی واقع ہو۔دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
عام تاثر ہے کہ جوہری بم سے کئی گنا خطرناک گلوبل وارمنگ کا بم ہے جس کے اثرات سے کرہ ارض خطرات میں گھیرا ہوا ہے۔ماضی کی نسبت اب موسم گرما میں گرمی کی عمومی صورتحال شدید ہو رہی ہے اور گرمی شدت سے بڑھ رہی ہے جب کہ سردیوں کا موسم سکڑتا جا رہا ہے۔
موسمی تغیر کے باعث مختلف ممالک میں طوفانی بارشوں،سیلابی ریلوں،سمندری طوفان سے ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور کہیں قحط اور خشک سالی کی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔یہ سب دراصل گلوبل وارمنگ ہی کا نتیجہ ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے زراعت متاثر ہو رہی ہے اور خوراک کی قلت بھی بڑھ رہی ہے۔دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ اکثر اشیاء کی تیاری میں خام مال زرعی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں 1.6 کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کرہ ارض کے تمام مسائل اور مشکلات کا سب سے بڑا سبب یہاں بسنے والے انسان ہیں۔سڑکوں پر دھواں اُڑاتی گاڑیاں، کارخانوں کی دھواں اگلتی چھٹیاں،کیمیکل پلانٹس سے خارج ہوتا زہریلا پانی گرین ہاؤس گیسوں کے خاتمے کی وجہ سے بن رہا ہے۔
علاوہ ازیں بڑے پیمانوں پر جنگلات کی کٹائی کرہ ارض کے توازن میں بگاڑ کا باعث ہے جب کہ یہی درخت فضا میں موجود کاربن گیسوں کو دوبارہ زندگی بخش آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں۔اب ہمارا بنیادی اور اہم فریضہ ہے کہ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق ایک پودا لگائے جو صدقہ جاریہ کے ساتھ ساتھ فضائی خوشگواری کا ذریعہ بھی ہے۔لہٰذا عام آدمی اپنے معاملات میں بہتری لائے تاکہ زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکے۔

Browse More Healthart