Mobile Phone Ka Ziada Istemal Muzar Sehat - Article No. 1719

Mobile Phone Ka Ziada Istemal Muzar Sehat

موبائل فون کا زیادہ استعمال مضر صحت - تحریر نمبر 1719

صحت کے ماہرین کے مطابق کم عمر بچوں کی صحت پر موبائل فون کے زیادہ استعمال سے خراب اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

جمعرات 7 نومبر 2019

نسرین شاہین
صحت کے ماہرین کے مطابق کم عمر بچوں کی صحت پر موبائل فون کے زیادہ استعمال سے خراب اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اسے زیادہ دیر تک استعمال کرنے سے بچوں میں آنکھوں کی مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کے رہائشی بچوں میں موبائل فون کا کثرت سے استعمال دیکھنے میں آتاہے۔تین سے پانچ برس کی عمر کے بچوں میں موبائل فون کا استعمال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے،جس سے اُن میں آنکھوں کی بیماریاں ،آنکھوں میں خشکی پیدا ہونا اور آنکھوں کا جلنا اور نظر کی کمزوری کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر میں چشمے لگانے کا رجحان بھی بڑھتا جارہاہے۔


ماہرین امراض چشم کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھنے کی کوشش کریں،زیادہ دیر موبائل ،ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ پر گھنٹوں وڈیو گیمز کھیلتے ہوئے نظریں جمانے سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر بُرے اثرات پڑنے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

موبائل فون سے جو شعاعیں نکلتی ہیں،اس سے آنکھوں میں پانی بہنے اور دماغ وہڈیوں کی کمزوری جیسی بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہیں،جب کہ کم عمر بچوں پر زیادہ دیر موبائل فون استعمال کرنے سے ”مائی اوپیا“(MYOPIA)حملہ کر سکتاہے،یعنی اُن کی دور کی نظر بھی کمزورہوسکتی ہے۔


آج کل چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اسمارٹ فون اور ڈیجیٹل دنیا میں گم ہوکررہ گئے ہیں۔اس دور کے بچوں کو حقیقی دنیا سے کوئی لگاؤنہیں ہے۔وہ معصوم بچے جنھوں نے ابھی بولنا بھی نہیں سیکھا ہوتا،وہ موبائل کا بے دھڑک استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بچے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ پر مختلف قسم کے گیمز اور کارٹون فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔آج کی مائیں بچوں کی بہترین تربیت کرنے اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے یا تو سوشل میڈیا پر مصروف ہوتیں ہیں یا ٹی وی پر اپنے پسندیدہ ڈرامے یا مارننگ شودیکھنے میں مشغول ہوتی ہیں۔
یہ مائیں اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں کو اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ پر کارٹون فلم یا گیم لگا کر دے دیتی ہیں۔وقتی طور پر بچے خاموشی سے تنگ کیے بغیر اسمارٹ فون پر اپنا پسندیدہ گیم یا کارٹون فلم دیکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں،مگر رفتہ رفتہ یہی ان کی عادت بن جاتی ہے۔
جدید دور کے تقاضے بھی نئے ہیں،جس میں موبائل فون سمیت نئی ٹیکنالوجی کو زندگی گزارنے کے لیے لازم وملزوم سمجھ لیا گیا ہے۔
بڑے تو بڑے چھوٹے بچے تک موبائل فون کے دل دادہ ہیں،لیکن نئی تحقیق میں والدین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ بچوں کے کھانے اور سونے کے وقت موبائل فون ان سے دور رکھا جائے،کیونکہ برقی آلات کا زیادہ استعمال ذہنی امراض کا سبب بننے لگا ہے۔برطانوی تحقیق کاروں کے مطابق والدین اپنے بچوں پر توجہ اور وقت دیں،صرف سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرنے سے انھیں خوش نہیں رکھا جا سکتا۔
خاندان کے افراد سے بات چیت بچوں کی نشوونما کے لیے اہم ہے،اس لیے کھانے کی میز پر موبائل فون کو استعمال نہ کیا جائے۔
ذہنی امراض کے ماہرین کے مطابق آن لائن دیکھی جانے والی فلمیں ذہن پر انتہائی خراب اثرات ڈالتی ہیں۔ٹچ اسکرین کا زیادہ استعمال نہ صرف بچوں،بلکہ بڑوں کو بھی نقصان پہنچاتاہے۔موبائل فون کی اسکرین عام طور پر نیلے رنگ کی ہوتی ہے،یہ رنگ باقی تمام رنگوں سے زیادہ توانائی کا حامل ہوتاہے۔
بچوں اور بڑوں کی نظر کو دھندلا ،بلکہ نا بینا بھی کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ گردن ،کمر اور سر کے درد کا باعث بنتاہے۔اس سے دماغی کارکردگی بھی کم ہوتی ہے،جب کہ نیند پر بھی منفی اثر پڑتاہے۔کم عمر بچے اسمارٹ فون کے استعمال سے اظہار کی قوت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ایک مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ایسے بچے جو دن میں آدھے گھنٹے تک اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں،وہ اپنی خواہشات اور جذبات کا اظہار کھل کر نہیں کر سکتے۔
بچوں کا موبائل فون استعمال کرنا ان کے جذبات کے اظہار کی قوت کو متاثر کرتاہے۔
یونیورسٹی آف ٹورانٹو کے محققین نے کم عمر بچوں کے اسمارٹ فون استعمال کرنے اور اس کے استعمال کی صورت میں ہونے والے نقصانات پر تحقیق کی،جس کے بعد ماہرین کاکہنا ہے کہ ایسے بچے ،جو 18ماہ کی عمر سے کم ہوتے ہیں، وہ جب اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں تو ان میں پانی بات کو بیان کرنے کا اظہار کم ہونے کا امکان ہوتاہے۔
9اور10برس کی عمر کے بچے،جو سات گھنٹوں سے زیادہ موبائل فون استعمال کرتے ہیں،ان کے دماغ کی بیرونی جھلی جو معلومات کے ذیل میں اہم کام کرتی ہے ،وہ کمزور ہو جاتی ہے۔تحقیق کے مطابق وہ بچے جو ایک سے دو گھنٹے موبائل فون استعمال کرتے ہیں،ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ میرے نزدیک بچوں کے لیے موبائل فون اور ٹیبلیٹ کا استعمال شروع کرنے کی صحیح عمر 14برس ہے ،لیکن اس کا انحصار بچوں کے طرز عمل اور مختلف چیزوں میں دلچسپی لینے پر ہے۔
یہ عمر کا وہ حصہ ہوتاہے،جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہوتے ہیں،تب وہ فطری طور پر اپنے لیے زیادہ آزادی کا تقاضا کرتے ہیں۔اس بات کا اظہار وہ اپنے رویوں اور عادات میں تبدیلیوں کے ذریعے کرتے ہیں،لہٰذا بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دینے سے قبل والدین کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں ضرور جان لینا چاہیے۔موبائل فون کا مسلسل استعمال یوں تو ہر عمر کے افراد کے لیے خطرے کا باعث ہوتاہے،مگر بچوں پر اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک وہ وقت تھا،جب بچوں کو گھر سے باہر کھیلنا کودنا اور اپنے لیے دلچسپیاں تلاش کرنا اچھا لگتا تھا۔اس سے نہ صرف ان کا وقت بہت خوش گوار گزرتا تھا،بلکہ یہ ان کی جسمانی اور دماغی توانائی کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا تھا،لیکن آج کے بچے کم عمری سے ہی اسمارٹ فون اور جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں گم رہنا پسند کرتے ہیں۔اس طرح بچوں کی معصومیت ان کے بچپن ہی سے رخصت ہو جاتی ہے۔
اگر اسمارٹ فون کی شعاعیں ایک بالغ انسان کے دماغ اور جسم پر بُرے اثرات مرتب کرتی ہیں تو ہمیں ان بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے،جن کے سروں کی جلد پتلی اور نرم ونازک ہوتی ہے،لہٰذا اُن کے دماغوں پر بہت بُرا اثر پڑتاہے۔آج کل کے بچے بھاگ دوڑ اور عملی سر گرمیوں کے بجائے ایک جگہ بیٹھ کر اسمارٹ فون پر گیمز کھیلتے یا کارٹون فلمیں دیکھتے نظر آتے ہیں۔
اب بچوں کو کسی دوست کی ضرورت نہیں ہوتی ،وہ اسمارٹ فون کو ہی اپنا پکا دوست سمجھتے ہیں۔
ماہرین صحت کے مشاہدے کے مطابق کھیل کود اور باگ دوڑ کی وجہ سے بچوں کے اعصاب مضبوط ہوتے تھے اور ان کی نشوونما تیزی سے ہوتی تھی۔اگر بچوں میں جدید طرز زندگی اختیار کرنے کی یہی روش جاری رہی تو مستقبل میں صورت حال بہت زیادہ سنگین ہوجائے گی۔ماہرین صحت نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روزانہ بچوں کے ساتھ چہل قدمی کریں اور انھیں کھیل کود کی طرف راغب کریں۔
آج کے دور میں بیش تر والدین کا سوال یہی ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کوموبائل فون سے دور کرسکتے اور انھیں فطری طور طریقوں کے قریب لا سکتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ کم سن بچوں کی نگہداشت کی جائے ،ان پر نظرر کھی جائے،انھیں وقت دیا جائے اور ان سے گفتگو بھی کی جائے اسمارٹ فون کا استعمال اس کا نعم البدل ہر گز نہیں ہو سکتا۔
دور حاضر کے بچے کا غذی کشتیوں کو پانی میں بہانے،کھلونوں سے دل بہلانے تتلیوں کے پیچھے دوڑنے اور ریت کے گھر وندے بنانے والے بچے نہیں اور نہ یہ کوہِ قاف کے جنوں،پریوں سے متعلق فرضی داستانوں پر یقین کرتے ہیں۔یہ جدید دور کے ذہین ترین بچے ہیں۔یہ حقیقی دنیا میں اتنا وقت نہیں گزارتے،جتنا ڈیجیٹل دنیا میں گزارتے ہیں۔

Browse More Healthart