Motapa Darmiyani Umar Ke Afraad Mein Jigar Ke Liye Bara Khatrah - Article No. 1297

Motapa Darmiyani Umar Ke Afraad Mein Jigar Ke Liye Bara Khatrah

موٹاپا درمیانی عمر کے افراد میں جگر کے لیے بڑا خطرہ - تحریر نمبر 1297

بائیو بینک ریسرچ پروجیکٹ میں تقریبا تین ہزار افراد کے سکین سے پتہ چلا ہے کہ تقریبا 12 فیصد افراد کے جگر یا لیور کا سائز بڑھا ہوا

منگل 24 اپریل 2018

ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ برطانیہ میں درمیانی عمر کے ہر آٹھ میں سے ایک فرد کو موٹاپے کی وجہ سے جگر کے امراض کا سامنا ہے۔بائیو بینک ریسرچ پروجیکٹ میں تقریبا تین ہزار افراد کے سکین سے پتہ چلا ہے کہ تقریبا 12 فیصد افراد کے جگر یا لیور کا سائز بڑھا ہوا اور ان میں چربی موجود تھی۔برٹش لیور ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ یہ نتائج 'بہت تشویشناک ہیں' اور یہ 'خطرے کی گھنٹی' ہے کیونکہ ایسی صورت حال سے جگر سخت اور ناکام ہوسکتا ہے اور موت واقع ہوسکتی ہے۔
ہیپاٹولوجسٹ کا کہنا ہے کہ چربی دار جگر کی بیماری کسی خاموش وبا کی طرح ہے۔برطانیہ میں سائنسدانوں نے جگر کے امراض کی تشخیص کے لیے ایک جدید سافٹ وئیر تیار کیا ہے جو جگر کے مریضوں کے علاج و تشخیص میں مدد ملے گی۔ برطانیہ میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص کو جگر کے امراض کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

یہ اس لیے تشویشناک ہے کہ اس کی علامات نقصان ہونے سے قبل ظاہر نہیں ہوتے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اگر وقت پر اس کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج ہو سکتا ہے۔آکسفورڈ کی 52 سالہ فرانسیس کیرول کو سات سال قبل بتایا گیا کہ انھیں چربی دار جگر کی بیماری تھی۔ ان کا وزن 116 کلو گرام تھا۔ لیکن اس وقت ان کا وزن 42 کلو کم ہو چکا ہے۔فرانسیس نے بتایا: 'جب مجھے بتایا گیاکہ مجھے جگر کی بیماری ہے تو میں صدمے میں چلی گئی لیکن میں اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے پرعزم تھی۔
میں نے زیادہ صحت مند غذا لینی شروع کی اور پھر اس کے ساتھ جسمانی ورزش شروع کی۔ اب میں خوش ہوں کہ میں معمول پر آ گئی۔اب وہ فٹنس کلاس میں درس دیتی ہیں اور غذائیت کے بارے میں صلاح و مشورہ دیتی ہیں۔انھوں نے کہا: میں 2011 میں سوچ نہیں سکتی تھی کہ میں پرسنل ٹرینر بن سکتی ہوں کیونکہ میں ذرا بھی چلتی تھی تو سانس پھول جاتی تھی اور اب میں اونچائی پر دوڑتی ہوں۔
انھوں نے اب نئی قسم کا ایم آر آئی سکین کرایا ہے جس میں پتہ چلا ہے کہ اب ان کا جگر پھر سے تندرست و توانا ہے۔آکسفورڈ کے سائنسدانوں کی سربراہی میں کی جانے والی ایم آر آئی کے نتائج پریس میں منعقدہ بین الاقوامی لیور کانگریس میں اعلان کیا گیا۔یہ ٹیسٹ ایک جدید سافٹ ویئر کی مدد سے مکمل ہو سکا ہے۔ اسے آکسفورڈ یونیورسٹی کی پرسپیکٹم ڈائگناسٹک کمپنی نے تیار کیا ہے۔
پرسپیکٹم کمپنی کی سی ای او ڈاکٹر راجشری بینرجی نے کہا: این ایچ ایس، ٹیکس دہندہ گان اور مریضوں کے واضح فائدے کے لیے برطانیہ کے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے لیور ملٹی سکین بنایا جو کہ سمارٹ ہیلتھ ٹیکنالوجی کی عظیم مثال ہے۔انھوں نے کہا کہ لیور بایوپسی ہیپاٹولوجی کا اہم حصہ ہے لیکن ہمیں ایک ایسی چیز چاہیے تھی جو بغیر سوئی اندر ڈالے جگر کی بیماری کی سنگینی کو جانچ سکے۔
اس سافٹ ویئر ٹول کا کسی بھی ایم آر آئی میں استعمال ہوسکتا ہے لیکن ابھی یہ معمول کی تشخیص کا حصہ نہیں ہے۔ساؤ تھیمپٹن جنرل پہلا این ایچ ایس ہسپتال ہے جو تحقیقی مرکز کے علاوہ اس نئے نظام کا استعمال کر رہا ہے۔یونیورسٹی ہسپتال ساؤتھیمپٹن میں ریڈیولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ برین کا کہنا ہے کہ اس سے بایوپسی کی ضرورت کم ہو جائے گی۔انھوں نے کہا کہ سکین سے سارے جگر کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے جبکہ سوئی سے صرف ایک حصے کا نمونہ ملتا ہے اور یہ ناخوشگوار بھی ہوتا ہے۔اس میں یہ آسانی بھی ہے کہ ہم مریض کا پھر سے سکین کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ ٓیا کوئی فائدہ ہوا ہے۔

Browse More Healthart