Pneumonia - Article No. 1737

Pneumonia

نمونیا - تحریر نمبر 1737

علاج میں غفلت جان لیوا ہو سکتی ہے

ہفتہ 23 نومبر 2019

راحیلہ مغل
ایک ایسے دور میں جہاں انسان نے خلا میں قدم رکھ دیا ہے اور دوسرے سیاروں پر بستیاں بسانے کی بات ہورہی ہے وہاں یہ حقیقت انتہائی دل خراش اور تکلیف دہ ہے کہ آج بھی ہمارے بچے نمونیا جیسی بیماری میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جس سے بہ آسانی حفاظتی ٹیکا لگانے سے قابو پایا جا سکتاہے۔ جن دس بیماریوں سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں ان ٹیکوں میں نمونیا سے بچاؤکا بھی ٹیکا ہے اور اہم بات یہ کہ حکومت پاکستان یہ ویکسین لوگوں کو مفت فراہم کررہی ہے،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ اس کے باوجود اپنے بچوں کو یہ ٹیکا نہیں لگاتے۔
آگہی اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یہ نہیں جان پاتے کہ وہ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں مہلک بیماریوں کے خطرات میں دھکیل رہے ہیں۔

(جاری ہے)


پاکستان سمیت دنیا بھر میں نمونیہ سے بچاؤ کا عالمی دن نومبر میں منایا جاتاہے،ماہرین اطفال کہتے ہیں کہ علاج بچوں کا بنیادی حق ہوتاہے،بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوا کر کم عمری میں مختلف امراض سے محفوظ کیا جا سکتاہے۔


پاکستان میں حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے سے سالانہ 3لاکھ50ہزار(5 سال تک کی عمر والے بچوں) کی اموات ہورہی ہے،ان اموات کی شرح حفاظتی ٹیکے لگوا کرکم کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں نمونیہ سے سالانہ90ہزار بچے اموات کا شکار ہورہے ہیں جوایک خطر ناک علامت ہے جبکہ ٹائیفائیڈ سے دنیا بھر میں 6لاکھ اموات ہورہی ہیں ان اموات میں سے60فیصد پاکستان سمیت ایشیائی ممالک سے رپورٹ ہوتی ہیں 12نومبر کو نمونیہ کے عالمی دن منانے کا مقصد والدین میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کیلئے آگاہی فراہم کرناہے۔
ویکسینیشن ان بچوں کا بنیادی حق ہوتاہے لیکن پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں مختلف وجوہ کی بنا پر بچوں کی ویکسینیشن نہیں کرائی جاتی۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔نمونیا دراصل نظام تنفس کے راستے یا پھیپھڑوں میں انفیکشن کو کہا جاتاہے۔اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کے لیے ایکس رے کیا جانا ضروری ہے۔
نمونیا ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے اور نتیجتاً یا تو جسمانی اعضا ناکارہ ہو جاتے ہیں یا انسان موت کا
شکار ہو جاتاہے۔عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں5سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے ۔
ان ممالک میں انگولا،عوامی ،جمہوریہ کا نگو،ایتھوپیا،نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔اسی طرح ایشیاء میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی اہم بیماری ہے۔
سردیوں کا موسم شروع ہورہاہے۔نمونیا کا خطرہ اسی موسم میں زیادہ ہوتاہے۔اس بیماری کی شدت میں پسلیاں چلنے لگتی ہیں۔بچہ کچھ کھاپی نہیں سکتا کیونکہ اس کی ساری توانائی سانس لینے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔
بخار بھی ہورہا ہوتاہے۔آکسیجن کی کمی سے پھیپھڑے بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔دماغ کو آکسیجن نہیں پہنچتی تو دماغ کو بھی نقصان پہنچتاہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غربت اور غذائیت سے بچوں کی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔نمونیا میں بچہ کچھ کھاپی نہیں سکتا۔جسم کو توانائی چاہیے ہوتی ہے اس لیے جسم میں موجود توانائی زیادہ استعمال ہونے لگتی ہے۔اس بیماری سے ٹھیک ہونے کے باوجود بچے کی بھوک کھلتے کھلتے ایک ہفتہ لگتاہے۔
اس دوران بچے بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔نمونیا کے علاج کے بعد بچے کو پہلے کی نسبت زیادہ اور بہتر خوراک دی جانی چاہیے ۔پیلی رنگت کی غذائیں اور سبز رنگ والی سبزیاں مثلاً ساگ وغیرہ زیادہ دینا چاہیے۔ایسی غذائیں جن میں وٹامن اے ہو وہ زیادہ دیں۔وٹامن اے انفیکشن کے خلاف مدافعت پیدا کرتاہے۔یہ سوچ غلط ہے کہ بچوں کو بیماری میں کھانا نہیں دینا چاہیے۔
بچے کو کچھ نہ کچھ کھلاتے رہیں۔کھانا نہ روکا جائے۔
پاکستان میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی شرح انتہائی کم ہے۔دیہی علاقوں میں تو یہ شرح انتہائی کم ہے۔سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی یہ شرح صرف16فیصد تک رہ جاتی ہے، حالانکہ دیہی علاقوں میں بھی بیسک ہیلتھ یونٹ(بی ایچ یو)اور تعلقہ اسپتال موجود ہوتے ہیں،جہاں یہ ٹیکے بچوں کو مفت لگائے جا سکتے ہیں۔
لیکن ناخواندگی کا بھی اس میں خاصا دخل ہے۔ماں باپ کو معلومات نہیں ہوتیں وہ سمجھتے ہیں کہ جب بچہ بیمار ہی نہیں ہے تو پھر ٹیکے کیوں لگوائیں ۔بہت سے غلط نظریات بھی رائج ہیں کہ بچے کو نزلہ کھانسی میں ٹیکا نہیں لگتا یا یہ کہ ٹیکا لگنے سے بچہ بیمار ہو جاتاہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔بچے کی پیدائش کے پہلے 6،دس یا14ہفتوں میں جو ویکسین(پینٹاویلن)لگتاہے ،اس کی وجہ سے بخار اور درد وغیرہ ہو جاتاہے جس کے لیے بخار کی دوا بھی دی جاتی ہے اور درد زیادہ ہوتو ٹھنڈے کپڑے سے سکائی کی جاتی ہے۔

لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے قریب سگریٹ نہ پییں،دھواں ان کے پھیپھڑوں پر اثر انداز ہو گا، جس سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔مائیں ایسی جگہوں پربچوں کو نہ آنے دیں جہاں دھواں ہو ،خصوصاً باورچی خانے وغیرہ میں جہاں لکڑی پر کھانا پک رہا ہو۔نمونیے کی ویکسین73ممالک میں(GAVI) فراہم کرتاہے ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔دھیرے دھیرے اس ویکسین کی قیمت میں متعلقہ ممالک بھی اپنا حصہ شامل کریں گے۔
پاکستان میں یہ ویکسین56ملین بچوں کے لیے فراہم کی جاتی ہے جس کی مالیت 84ملین ڈالرز ہے۔اب تک9مہلک بیماری کے ٹیکے لگائے جاتے تھے اب دسمبر سے دسویں ویکسین ”روٹاوائرس“بھی متعارف کروائی جارہی ہے۔
جانز ہاپکنز بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کے مصنفہ لی لوئی کہتی ہیں کہ”مسئلہ یہ ہے کہ تمام ملکوں میں پیش رفت ایک جیسی نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں کی شرح اموات انتہائی زیادہ ہے۔
“مصنفہ نے مزید کہا کہ”افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں پائے دار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی)کے تحت بچوں کی بقاء کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے معقول پیش رفت کی ضرورت ہے۔محققین نے بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے ماں کا دودھ پلانے،نمونیا ،ملیریا اور دست کی ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ پانی اور نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غربت ،غذا کی کمی ،پر ہجوم طرز رہائش اور ماحولیاتی آلودگی اس مرض کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
نمونیا کا آسان شکار کون ہیں؟
نمونیا کا شکار تمام عمر کے افراد ہو سکتے ہیں لیکن چھوٹے بچے اور بہت زیادہ بزرگ افراد اس کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ،ذیابیطس اور امراض قلب،انہیں بھی اگر نمونیا ہو جائے تو یہ ان کے لیے شدید خطرے کی بات ہے۔
جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
علامات کیا ہیں؟
یہاں آپ کو نمونیا کی علامات بتائی جارہی ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔بلغمی کھانسی ،تیز بخار،سانس لینے میں دشواری ،سینے میں درد، بہت زیادہ پسینہ آنا۔معدہ یا پیٹ کا درد،پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا،بھوک ختم ہونا ،کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا ،حد درجہ تھکاوٹ ،ذہنی ،جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔

علاج کیا ہے؟
نمونیا کے علاج کے لیے ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا از حد ضروری ہے ۔اگرکورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہو جائے تب بھی کورس کو ادھورانہ چھوڑا جائے۔

Browse More Healthart