Sun Yaas Aur Hormonal Replacement Therapy - Article No. 1289

Sun Yaas Aur Hormonal Replacement Therapy

سن یاس اور ہارمونل ری پلیسمنٹ تھراپی - تحریر نمبر 1289

سن یاس کے بعد قدرتی زنانہ ہارمون جو دل کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتے ہیں باقی نہیں رہتا اور عورت ہارٹ اٹیک کے معاملے میں مرد کے برابر آجاتی ہے ہارمونل ری پلیسمنٹ تھراپی (HRT) کے ذریعے عمر رسیدگی کے مراحل کو سست کرکرے جلد کو جھری زدہ ہونے ،جوڑوں پٹھوں کی تکالیف اور حافظے کی کمزوری کو دور کیا جا سکتا ہے

جمعرات 5 اپریل 2018

39سالہ رضیہ مشکل میں گھری ہوئی تھی۔ ہر ماہ اس کے ایام 10 دن سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے تھے۔ بعض اوقات تو اتنے بھاری پڑ جاتے تھے کہ اس کیلئے اٹھنا تک دوبھر ہوجاتا تھا اس نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا تو اسے ہسٹریکٹومی (Hysterectomy) یعنی سرجری سے رحم کاٹ دینے کے عمل کا مشورہ دیا گیا آپریشن کے چار ماہ بعد رضیہ کہیں زیادہ جوان اور زیادہ حسین دکھائی دینے گی۔
اس کے حسن و جمال کا راز؟ وہ اپنے ڈاکٹر کی چوکس نگرانی اور رہنمائی میں ہارمون ری پلیسمنٹ تھراپی (HRT) کرارہی تھی اور حقیقت میں اس پر نکھار آ گیا تھا۔ 51 سالہ صبیحہ سن یاس (Menopause) کے آخری حصے میں تھی۔ تقریبا 4 برس کے طویل در میانی وقفے کے بعد اب اسے سکون میسر آیا تھا اور وہ جھنجھلا دینے والی ناگہانی تپش‘ موڈ کی بار بار تبدیلی اور دیگر متعلقہ علامات سے آزاد ہو چکی تھی۔

(جاری ہے)

وہ بھی و اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر HRT کرارہی تھی۔ یہ تو بس ان دو کیسوں کا ذکر ہوا ہے جہاں ادھیڑ عمر کی خواتین ہارمون ری پلیسمنٹ تھراپی کے زیر علاج ہیں۔ - نسوانی ہارمون اسٹریجن جو کہ زنانہ خصوصیات اور ظاہری پن کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جو کہ دل کے دورے ( ہارٹ اٹیک) اور اس جیسی دیگر بیماریوں کیلئے ڈھال کا دیتے ہیں سن یاس کے بعد عام طور پرجسم میں ان کی پیداوار بند ہوجاتی ہے۔
یا پھر ایسے آپریشن کے بعدبھی نسوانی ہارمون بننا بند ہو جاتے ہیں جس میں صرف رحم بلکہ بیضہ دانی بھی نکال دی گئی ہو۔ ایسی خواتین کو ہارمون کی تبدیلی درکار ہوتی ہے تا کہ ان کے جسم معمول کے مطابق کام کریں۔ تخمینہ یہ لگایا گیا ہے کہ ان تمام خواتین میں سے جو کہ سن یاس سے دو چار ہو چکی ہوں‘لگ بھگ 40 فیصد کو HRT کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقیہ دیگر خواتین بغیر کسی مشکل اور مسئلہ کے روانی کے ساتھ عمر رسیدگی میں داخل ہو جاتی ہیں۔
HRT اوسٹیو پوروسس کی علامات کے لئے جوابی حملے کی صورت میں بھی استعمال کی جاتی ہے جہاں نارمل نسوانی ہارمونز بند ہونے کی وجہ سے ہڈیوں کی کثافت گھٹ جاتی ہے۔ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں جس کے سبب جوڑوں میں درد فریکچر آرتھرائٹس اور اس جیسی دیگر تکالیف شروع ہو جاتی ہیں۔ HRT انہیں بڑی حد تک کم کر دیتی اور گھٹا دیتی ہے اگر طبی مشورے کے مطابق اختیار کی جائے۔
بہرحال جوانی کے اس نام نہاد آب حیات کا اپنا تاریک پہلو بھی ہے۔ ان ہزاروں خواتین کے بارے میں گہرے مطالعے کے بعد جو 5 سال سے زیادہ عرصہ تک HRT کراتی رہی ہیں ان میں بڑی آنت اور سینے کے سرطان کی شرح میں فیصد اضافے کی رپورٹ ملی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں یا اس کے لگ بھگ جب کہ متوقع زندگی میں اضافہ ہوا ہے ہنوز سن یاس کے بعد خواتین میں غیر نمایاں علامات قابل توجہ ہوگئی ہیں۔
صدی کے تبدیل ہونے کے بعد جبکہ خواتین50 - 60 برس کے بعد تک بہ مشکل جی پاتی تھیں ایسی خواتین کی تعداد گھٹ گئی تھی کہ جن پر سن یاس کے بعدکے اثرات کا مطالعہ کیا جا سکے۔ لیکن اب ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ جن زیادہ سے زیادہ مسائل کا شکار ہورہی ہیں وہ سامنے آ رہے ہیں۔ سن یاس ‘بلوغت کا الٹ ہے۔ کسی بھی لڑکی کا جسم اسٹراجن کی پیداوارکا آغاز اس وقت کرتا ہے مکمل مطالع ایک اور ماہر ڈاکٹر کا کہنا ہے۔
ڈاکٹر انچارج کے لئے ضروری ہے کہ وہ مریضہ کی مکمل ہسٹری سے واقف ہو صحیح طور پر کیس کا مطالعہ کر سکے اور ہارمونز تجویز کرنے سے پیشتر تمام ضروری ٹیسٹ کرالے۔ اس کے علاوہ خوراک بھی ہر فرد کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوتی ہے ... اس مریضہ کے مسائل اور اس کی ضروریات کے مطابق۔ جب تک کہ مریض کے بارے میں مکمل اور بھر پور مطالعہ نہ کیا جائے کسی کوبھی اس کے لئے دوا تجویز نہیں کرنی چاہئے‘ HRT دوقسم کی ہوتی ہے۔
ایک مختصر مدت کے لئے جو کہ چند ماہ تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ جسم مضبوط اور پائیدار نہیں ہو جاتا (آپریشن یا سن یاس کے بعد) اور دوسری طویل المدت جس میں مریضہ کو اپنی بقیہ تمام زندگی کے لئے اس کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ HRT قدرتی طور پر عورت کے شباب کو محفوظ کر دیتی ہے جو کہ بہ صورت دیگر جھریوں اور شکنوں کی صورت میں اس کی جلد پر ظاہر ہوجاتا ہے اور عمر رسیدگی کی تمام علامات نمایاں ہوجاتی ہیں جیسے کہ جوڑوں کا در اوسٹیو پوروس اور بھول پن ( حافظے کی کمزوری)۔
اس تھراپی کے زیراثر رہنے سے عمر رسیدگی کا مرحلہ روکا جاسکتا ہے اور عورت جوان دکھائی بھی دے سکتی ہے اور خود کو جوان بھی محسوس کرسکتی ہے۔ایک ایسی خاتون نے جو کہ کچھ عرصہ قبل سرجری کے ذریعے رحم کٹوا چکی تھیں اپنی ڈاکٹر کے مشورے پر تھراپی کے زیر علاج رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کارحم سن یاس سے بہت پہلے سرجری کے ذریعہ نکال دیا گیا تھا اور ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ بجائے وہ خاتون بل از وقت سن یاس کی علامات سے دو چار ہو اس کی تھراپی جاری رکھی جائے اور وہ نارمل رہے۔
اب اس خاتون کو HRT کراتے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کی جلد دمکنے لگی ہے اور وہ بالکل صحت مند ہیں اور دیکھنے میں اپنی حقیقی عمر سے 10 برس کم کی گئی ہیں۔ مجھ پرکسی قسم کے ضمنی اثرات بھی نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی پرابلم ہوا۔ اس خاتون نے بتایا۔ایک ماہر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ HRT ہر اس خاتون کیلئے تجویز کیا جاسکتا ہے جو اسے کرانا چاہتی ہو یا جسے اس کی ضرورت ہو بہ شرط یہ کہ اس کی ڈاکٹر پہلے اس کا تفصیلی معائنہ کر لے اور مکمل چیک اپ کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ آیا اس کیلئے HRT مناسب رہے گی یا نہیں۔
جن خواتین کو ہارٹ کا پرابلم ہو یا دیگر سنجیدہ نوعیت کے پرابلم ہوں انہیں یہ ٹریٹمنٹ نہیں لینا چاہئے۔‘ماہر ڈاکٹر نے کہا۔نارتھ امریکن مینوپاز سوسائٹی کی کوفا ؤ نڈر اور کلیولینڈ انڈوکرائنولوجسٹ نے اس بات کی تنبیہ کی ہے کہ تمام خواتین اوسٹروجن نہیں لے سکتیں۔ جن خواتین کی فیملی ہسٹری میں سینے کا سرطان با رم کا سرطان رہا ہو انہیں اوسٹروجنسی کسی طور پرنہیں لینے چاہئیں۔
رسک کے عوامل امریکن خواتین میں چند ایک اور دیگر ممالک جیسے جاپان کور یا ملائیشیا اور دیگر ملکوں کی خواتین ہارمونز کو دواکے قدرتی حصے کے طور پرلیتی ہیں البتہ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے تجویز کئے جانے کے باوجوداس طریقہ علاج کو درمیان میں ادھورا چھوڑ دیا یا منقطع کر دیا۔ 1987ء کے ایک مطالعے اور سروے کے مطابق امریکہ میں ان میں سے لگ بھگ 30 فیصد خواتین نے جنہیں یہ تھراپی تجویز کی گئی تھی اسے لینے سے انکار کر دیا۔
بقیہ نے چند ماہ کے بعد اسے چھوڑ دیا اور دیگر بھی یہ تھراپی کر لیتی تھیں اورکبھی چھوڑ دیتی تھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کئی خواتین دوا لینے سے نفرت کرتی ہیں بہت سی دوا لینے کے بعد طبیعت کی خرابی کی شکایت کرتی ہیں اور دیگر خطرات کے پہلووٴں کے پیش نظر فکر مند رہتی ہیں۔ ایک 55 سالہ خاتون نے بتایا ”اگر صرف جھریوں سے نجات حاصل کرنے اور وزن بڑھانے کا معاملہ ہے جس میں کینسر کا خطرہ (چاہے جتنا معمولی ہی کیوں نہ ہو ) شامل ہے تو میں دوانہ لینے کو تر جیح دوں گی۔
آخرکار جو کوئی بھی شے غیر فطری ہے وہ فطرت کے خلاف ہے اور میں فطرت کی تعظیم کرتی ہوں۔ سن یاس کے بعد قدرتی زنانہ ہارمون جو دل کی بیماری سے تحفظ فراہم کرتا ہے باقی نہیں رہتا اور عورت ہارٹ اٹیک کے معاملے میں مرد کے برابر آجاتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہ سن یاس کے بعد عورتوں اور مردوں کو ہارٹ اٹیک ہونے کا امکان برابر کا رہتا ہے۔ یہاں پر اگر HRT قدم رنجہ ہو جائے تو ہارٹ کے پرابلمز میں تخفیف کا امکان ہو جا تا ہے۔
پس یہ ہر ایک خاتون کی اپنی ذاتی پسند پر مختصر ہے کہ وہ HRT کرانا چاہتی ہے یا نہیں اور اس کا فیصلہ بھی ہر خاتون کو خود ہی کرنا چاہئے۔ اسے خود منفی اور مثبت پہلووٴں پر غور کرنا چاہئے اس بارے میں گہرائی سے جائزہ لے ‘ڈاکٹروں سے مشورہ کرے خاندان والوں سے رائے لے اور پھر فیصلہ کرے۔ ہر فیصلے کے اپنے مثبت اورمنفی پوائنٹ ہوتے ہیں اور ہر خاتون کو فیصلہ کرنے سے قبل ان کی اچھی طرح سے جا نچ کر لینی چاہئے۔
خواتین میں HRT کی بناء پر کینسر کے خطرے کے بارے میں ابھی تک تفصیلی مطالعہ نہیں کیا گیا اور ابھی سروے کا کام جاری ہے۔ ضروری نہیں کہ جو کوئی بھیHRT گرائے گا اسے کینسر ہو جائے گا لیکن یہ خوف ابھی بھی ہولناک دکھائی دیتا ہے اور اسی بناء پر بیشتر خواتین اسے ٹال جاتی ہیں با وجود اس کے کہ ڈاکٹر انہیں یہ تھراپی تجویز کرتے ہیں۔ وہ گولیاں حلق سے نیچے اتارنے کی بجائے خاموشی سے سب کچھ سہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور ان تکالیف و کیفیات کو برداشت کرتی رہی ہیں جن کا مداوا ہارمون ری پلیسمینٹ تھراپی سے ہوسکتا ہے۔

Browse More Healthart