Tashanuj - Article No. 2551

Tashanuj

تشنج - تحریر نمبر 2551

یہ بیماری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے

جمعرات 6 اکتوبر 2022

ڈاکٹر جمیلہ آصف
ٹیٹنس یا تشنج سے ہم سب ہی واقف ہیں۔جب بھی کوئی روڈ ایکسیڈنٹ ہوتا ہے تو اس میں زخمی ہونے والے کو سب سے پہلے فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ ٹیٹنس کا ٹیکہ لگوائے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔تشنج کو جبڑوں کے آپس میں جڑ جانے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔اس بیماری کے سپورز موافق حالات میسر آتے ہی نشوونما پانے لگتے ہیں اضافی علامات میں رال ٹپکنا،بہت زیادہ پسینہ آنا،بخار،ہاتھ پاؤں کا مڑنا جھنجھلاہٹ،سانس گھٹنا،دل کا دورہ پڑنا،سانس کا اُکھڑنا اور دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہو جانا وغیرہ شامل ہیں۔

اصل میں یہ ایک مخصوص بیکٹیریا سے ہونے والی انفیکشن ہے۔اس بیکٹیریا کا نام کلوسٹریڈیم ٹیٹنس ہے۔اس انفیکشن کی وجہ سے جسم کے تمام پٹھے شدید اکڑنے کی حالت میں آجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

تمام اندرونی اعضا میں موجود پٹھے حتیٰ کہ دل کے عضلات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔عام طور پر جبڑوں کو حرکت دینے والے مسلز سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے بعد پٹھوں کا کھنچاؤ جسم کے تمام اعضاء تک پھیل جاتا ہے۔

پٹھوں کا کھنچاؤ یا اکڑنا اس قدر شدید ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہڈیوں سے فریکچر ہو جاتے ہیں۔
تشنج کی وجہ سے تمام جسم کے عضلات اکڑ جاتے ہیں لیکن دل کے عضلات میں عموماً یہ اکڑاؤ نہیں ہوتا۔اس کی وجہ شاید دل کے عضلات میں پایا جانے والا خفیف سا کرنٹ ہے۔تشنج کے بیکٹیریا ایک زہریلا کیمیائی مادہ خارج کرتے ہیں جو اعصاب کے ذریعے دماغ تک جا پہنچتا ہے۔
اس زہر کے زیر اثر دماغ عضلات کو ایسے پیغامات جاری کرتا ہے جس کے تحت عضلات اکڑنے کی حالت میں رہتے ہیں۔اگر تشنج کی علامات اور نشانیوں بارے بات کی جائے تو سب سے پہلی علامت جبڑوں کا جڑ جانا یعنی لاک ہو جانا ہے۔جبڑوں کے ساتھ ساتھ سارے چہرے کے عضلات بھی اکڑ جاتے ہیں اور چہرے کی ساخت مخصوص بن جاتی ہے۔چہرے کے بعد گردن،سینے،کمر اور کولہوں و ٹانگوں کے عضلات میں شدید کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ کمر اور سینے کے عضلات سانس لینے میں معاون ہوتے ہیں۔
لہٰذا ان کے شدید کھنچاؤ کے باعث سانس لینے میں بہت زیادہ دقت ہونے لگتی ہے،جسم کے مختلف حصوں کے عضلات کے مسلسل اکڑاؤ میں رہنے سے شدید درد شروع ہو جاتا ہے اور ایسی صورتحال کو ٹیٹنی کا نام دیا جاتا ہے۔ٹیٹنی کی وجہ سے عضلات میں توڑ پھوڑ اور ہڈیوں میں فریکچر ہونے لگتے ہیں۔اضافی علامات میں رال ٹپکنا،بہت زیادہ پسینہ آنا،بخار،ہاتھ پاؤں کا مڑنا جھنجھلاہٹ،سانس گھٹنا،دل کا دورہ پڑنا،سانس کا اُکھڑنا،دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہونا اور پیشاب پاخانہ نکل جانا شامل ہیں اور یہ مرض اس قدر خطرناک ہے کہ بہترین علاج کے باوجود دس فیصد تک اموات واقع ہو جاتی ہیں۔

کلینکل بنیادوں پر تشنج کو چار مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلی قسم کو عمومی تشنج یا جنرلائزڈ تشنج کہتے ہیں۔یہ تقریباً اسی فیصد کی شرح سے پائی جاتی ہے۔اس قسم میں علامات سر سے پاؤں کی طرف چلتی ہیں یعنی سب سے پہلے جبڑے کا بند ہونا اور چہرے کے عضلات کا سخت ہونا اس کے بعد نگلنے میں دقت اور گردن کے عضلات کا اکڑ جانا۔پھر سینے کے اور ٹانگوں کے عضلات کا اکڑ جانا شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بخار ہونا،پسینہ آنا،بلڈ پریشر کا بڑھ جانا،دل کی دھڑکن میں وقفے وقفے سے اضافہ ہونا،جسم کے عضلات بھی مسلسل اکڑے نہیں رہتے بلکہ وقفے وقفے سے اکڑتے ہیں۔جسم ایک خاص کمان جیسی حالت اختیار کر لیتا ہے۔یہ عمل چار ہفتے تک جاری رہتا ہے اور مکمل صحت یاب ہونے میں مہینوں لگ سکتے ہیں مگر چار دن کے دوران بھی واقع ہو سکتی ہے۔تشنج کی دوسری قسم نوزائیدہ بچوں میں دیکھی جاتی ہے۔

اس میں عمومی تشنج کی علامات پائی جاتی ہیں اور عام طور پر یہ ایسی ماؤں کے بچوں کو ہوتی ہے جنہیں ویکسین نہیں کروائی گئی ہوتی۔نوزائیدہ بچوں میں یہ عموماً آنول کی انفیکشن سے ہوتی ہے کیونکہ آنول کاٹنے کے لئے جو قینچی استعمال ہوتی ہے وہ آلودہ ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق نوزائیدہ بچوں کی اموات کا تقریباً پندرہ فیصد حصہ تشنج کی وجہ سے سامنے آتا ہے اور یہ تمام ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے،ترقی یافتہ ممالک میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
تشنج کی تیسری قسم کو مقامی یا لوکل کہتے ہیں۔اس میں عموماً اس جگہ کے عضلات میں تشنج ہوتا ہے جس جگہ زخم اور چوٹ لگتی ہے۔تشنج ہفتوں تک مقامی عضلات میں رہنے کے بعد یا تو ٹھیک ہو جاتی ہے اور یا جنرلائزڈ فارم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔چوتھی اور آخری قسم کو سر کے تشنج کا نام دیا گیا ہے،اس میں صرف سر کے عضلات میں تشنج دیکھی جا سکتی ہے اور یہ اس قدر کم ہوتی ہے کہ عموماً معالجین اس کو پہچان نہیں پاتے۔
اس کی وجہ سر کی چوٹ،آنکھ کی چوٹ،دانت نکالنا اور کان کا انفیکشن وغیرہ ہو سکتی ہے۔اگرچہ یہ قسم کافی کم پائی جاتی ہے لیکن یہ سب سے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔اس میں جان جانے کا خطرہ تیس فیصد تک ہوتا ہے۔تشنج سے بچاؤ کیلئے ویکسین کروانا ازحد اہم ہے خاص طور پر بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروائیں اور نوجوان لڑکیوں کو شادی کے بعد ماں بننے سے پہلے تشنج کے حفاظتی انجکشن ضرور لگوائیں۔

ماہرین کے مطابق نیند کے دوران چونکا دینے والے جھٹکے بھی عام بیماری ہے۔یہ عصبی تشنج کی ایک قسم ہے۔نیند کے دوران انسان کے جسم کے کسی حصے میں اچانک جھٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔یہ ایسا تجربہ ہے جو ہر 10 میں سے 8 افراد کو ہوتا ہے۔اسے طبی زبان میں ہینیک جرک کہا جاتا ہے۔عصبی تشنج کی ایک قسم ہچکیاں بھی ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق نیند کے دوران چونکا دینے والے یہ جھٹکے بہت مختصر اور اچانک ہوتے ہیں اور اکثر نیند کے پہلے مرحلے میں ان کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان بیداری اور گہری نیند کے درمیان ہوتا ہے۔نیند کے اس مرحلے میں پٹھے پُرسکون ہو جاتے ہیں اور اس جھٹکے کو اکثر دماغ گرنے کے احساس کے طور پر لیتا ہے تو وہ مسلز میں کھچاؤ پیدا کرتا ہے۔ہینیک جرک کو سلیپ اسٹارٹس بھی کہا جاتا ہے جو بغیر وجہ کے ہوتا ہے اور کئی بار یہ جسم میں چھپی کسی بیماری کی علامت بھی ثابت ہوتا ہے۔
اس تجربے کے امکانات میں اضافہ کرنے والے چند مخصوص عناصر بھی ہیں جیسے تناؤ،بہت زیادہ جسمانی مشقت یا ورزش اور مخصوص دوائیں وغیرہ۔نیند کے دوران اس طرح کے جھٹکے سے بیداری صحت مند افراد میں عام ہوتی ہے مگر اس کی شدت میں تھکاوٹ،نیند کی کمی یا کیفین یا دیگر عادات سے اضافے کا خطرہ ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر اس طرح نیند سے اچانک جاگنا فکر مندی کا باعث نہیں ہوتا تاہم اس کا سامنا اکثر ہو اور آسانی سے سونا مشکل ہو جائے تو بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
کبھی کبھار نیند سے اچانک چونکنا کسی بیماری کی علامت بھی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر سلیپ اپنیا،ایسا مرض جس کے دوران سوتے ہوئے بار بار سانس چند لمحوں کیلئے تھم جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلز میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق جب سانس کی گزرگارہ بند ہو اور آکسیجن کی سطح میں کمی ہو جائے تو دماغ ایسے سگنل بھیجتا ہے جو مسلز میں کسی قسم کے جھٹکے کا باعث بنتے ہیں۔اس مسئلے کی روک تھام کیلئے کوئی بہتر طریقہ کار تو موجود نہیں مگر سونے کا ایک وقت طے کرکے اور آرام دہ ماحول میں نیند سے اس کا امکان کم کیا جا سکتا ہے۔ذہنی تناؤ میں کمی لانا اور کیفین یا چائے اور کافی کا کم استعمال بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

Browse More Healthart