Samaat Ka Khayal Rakhein - Article No. 2950

سماعت کا خیال رکھیں - تحریر نمبر 2950
کہیں بہرا پن اپنا شکار بنا لے
بدھ 9 اپریل 2025
کارکردگی اور اہمیت کے اعتبار سے بصارت کے بعد سماعت ہے۔سننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو بچہ سن نہیں سکتا، وہ بول بھی نہیں سکتا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کان کا کام صرف سننا ہی نہیں، بلکہ جسم کا توازن بھی برقرار رکھنا ہے۔اس کے علاوہ جب ہم بولتے ہیں، تو ہمارے ارد گرد کی اشیاء سے لہریں پیدا ہوتی ہیں، جو کان کے پردے کو ہلاتی ہیں۔پردے کے آگے ایک ایمپلی فائر نظام نصب ہوتا ہے، جس کے آگے نفیس پانی کی ایک تہہ ہوتی ہے۔اس میں قدرت نے باریک ترین نسوں کا جال بچھایا ہے، جو آواز کی لہروں کو سنسر کر کے دماغ کی طرف بھیجتا ہے۔دماغی خلیے ان لہروں کا تجزیہ کر کے انہیں ہمارے لئے معنی پہناتے ہیں۔بچپن سے جو باتیں سکھائی جاتی ہیں، دماغ ان کے مطابق ہی معنی اخذ کرتا ہے۔
(جاری ہے)
مثال کے طور پر اگر کوئی اجنبی زبان بولی جائے، تو کان کا پردہ اسے سُن کر دماغ کی طرف بھیج تو دے گا، لیکن اس کا مطلب نہیں نکال پائے گا۔
عارضی یا مستقل طور پر قوتِ سماعت کا فقدان بہرہ پن کہلاتا ہے۔بعض افراد پیدائشی طور پر بہرے ہوتے ہیں (واضح ہو کہ پیدائشی بہرے افراد گونگے بھی ہوتے ہیں) جبکہ کچھ افراد عمر گزرنے کے ساتھ سماعت میں کمی کا شکار ہو کر مستقلاً بہرے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات کانوں کی چند بیماریاں بھی بہرے پن کا سبب بن جاتی ہیں، اس لئے کوشش کرنی چاہیے کہ جونہی کانوں سے متعلق کوئی طبی مسئلہ جنم لے، فوری طور پر اس کے علاج کی طرف دھیان دیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک عام انسان کی قوتِ سماعت 0 سے 20 ڈیسی بل (شور کی شدت کو ناپنے کا پیمانہ) ہے۔اگر 21 سے 40 ڈیسی بل تک ہو تو اسے معمولی درجے کا بہرا پن (Mild Deafness) کہا جاتا ہے، جبکہ 41 سے 60 ڈیسی بل تک ہو تو اسے درمیانے درجے کا بہرا پن (Moderate Deafness) اور 61 سے 80 ڈیسی بل تک ہو تو اسے شدید درجے کا بہرا پن (Severe Deafness) کہا جاتا ہے۔اگر 80 سے زائد ڈیسی بل ہو تو اسے مکمل بہرا پن کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس درجہ بندی کے ساتھ سننے کے عمل میں آواز کی لہروں کا کان کے پردے پر ٹکرانا اور اس میں ارتعاش پیدا کرنا، نتیجتاً کان کی اندرونی ہڈیوں یعنی Ossicles کا متحرک ہونا اور آواز کی لہروں کا کان کے اندر موجود Cochlea میں پہنچ کر ایک خاص قسم کی برقی لہریں Electrical Impulses پیدا کرنا شامل ہے۔پھر یہ برقی لہریں دماغ میں پہنچ کر سماعت کا اثر پیدا کرتی ہیں اور ہم سننے لگتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران کہیں بھی کوئی رکاوٹ بہرے پن کا سبب بن سکتی ہے۔
بچوں میں اس عارضے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کان سے حلق تک جانے والی ٹیوب چھوٹی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بلغم خارج نہیں ہو پاتا یا اس میں اتنی ڈھلوان نہیں ہوتی کہ بلغم کو تیزی سے آگے بڑھا سکے، جس طرح بالغ افراد میں ہوتی ہے۔اس طرح سے بیکٹیریا یا وائرس کو گلے اور ناک کے درمیانی حصے میں سفر کرتے رہنا بہت آسان ہو جاتا ہے، جہاں سے یہ کان کو متاثر کرتے ہیں۔یہ انفیکشن اگر بار بار لاحق ہو تو کان کی ٹیوب بلاک ہو جاتی ہے اور یہ صورتِ حال اُس وقت مزید بگڑ جاتی ہے، جب Adenoids بھی متورم جاتے ہیں۔ٹیوب بند ہونے سے بلغم کان کے درمیانی حصے میں جمع ہوتا رہتا ہے اور جب یہ بہت گاڑھا ہو کر گوند کی شکل کا ہو جاتا ہے، تو بچے کے سننے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔دورانِ حمل اگر ماں بہت زیادہ مقدار میں اینٹی بائیوٹکس یا ایسپرین استعمال کرے، تو بھی بچے کی سماعت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ پیدائشی طور پر کان کی ٹیوب تنگ ہونا، کان کے اندرونی حصے میں کوئی ٹیومر یا سرطان اور کان کے حصے کی پیدائشی طور پر نشو و نما مکمل نہ ہونا چند ایسی وجوہ ہیں، جن سے عمر کے کسی بھی حصے میں بہرا پن سامنے آ سکتا ہے۔عام طور پر جو عوامل بہرے پن کا سبب بنتے ہیں، اُن میں وائرل انفیکشن، حادثاتی طور پر کان کے کسی حصے میں خرابی، کسی دوا کے مابعد اثرات، بالخصوص ایسی دوائیں جن کا جزو پلاٹینم ہو، موروثی بیماری، بڑھاپا، ذیابیطس، گردوں کے عوارض، کانوں کے مختلف امراض جن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، مختلف بیماریاں جیسے خسرہ، کن پیڑے وغیرہ اور گولی یا دھماکے کی زور دار آواز وغیرہ شامل ہیں۔
ایک برطانوی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موبائل فون کا زائد استعمال حسِ سماعت کو متاثر کر سکتا ہے اور اس سے اندرونی کان کا سرطان بھی لاحق ہو سکتا ہے۔یہ بات مشاہدات سے ثابت شدہ ہے کہ ایسے افراد، جو موبائل فون کا بکثرت استعمال کرتے ہیں، بعد ازاں انہیں سننے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے اور عموماً وہ اونچا سننے لگتے ہیں۔اس کے علاوہ ایسے افراد کے سر میں وقفے وقفے سے درد رہتا ہے اور کاندھوں و گردن میں بھی درد محسوس کرتے ہیں۔ایسے افراد جو کہ موبائل فون کو چوبیس گھنٹوں کے دوران پانچ گھنٹوں سے زائد استعمال کرتے ہیں، انہیں کان کے جملہ عوارض بالخصوص بہرے پن کا زیادہ خدشہ لاحق رہتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون سے نکلنے والی شعاعیں کان کے اندر داخل ہو کر حسِ سماعت کو متاثر کرتی ہیں۔آج کل مختلف اقسام کے موبائل فونز (زیادہ پیچیدگیوں کے ساتھ) عام ہیں، جو سادہ موبائلز کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
سماعت کے لئے نقصان دہ عوامل
جہاں تک سننے کا تعلق ہے، تو انسان صرف 20 سے 20 ہزار ہرٹز (ہرٹز جرمن ماہر طبیعات بین رچ آر۔ہرٹز کے نام پر ہے۔اسے ہرٹزی امواج یا برقی مقناطیسی جنبش بھی کہا جاتا ہے) تک کی آواز سن سکتا ہے۔اس سے کم انفرا ساؤنڈ اور اس سے زیادہ الٹرا ساؤنڈ کو سمجھنے کی صلاحیت انسان کے بس سے باہر ہے، البتہ جانوروں کی صلاحیتیں کم اور زیادہ ہرٹز کی آوازوں کو سن سکتی ہیں۔عمومی طور پر مختلف افراد کانوں کی صفائی کے شوق میں اپنے کانوں کا نقصان کر لیتے ہیں۔یاد رکھیں کہ کان کے اندر بننے والا موم یا میل کانوں کے پردے کی حفاظت کے لئے بنتا ہے اور اسے مختلف ذرائع سے (جیسے سوئیوں وغیرہ سے) نکالنے کی کوشش میں پردے پر زخم آ سکتے ہیں، اس لئے کانوں کو صاف کرنے کا کام نہیں کرنا چاہیے، البتہ نہانے کے بعد انھیں کپڑے کی مدد سے خشک کر لیا جائے، تاکہ پانی اندر رہ جانے کے سبب خشکی و خارش پیدا نہ ہو۔دوسری چیز جو کانوں اور سماعت کی دشمن ہے، وہ شور ہے۔بہت زیادہ اونچی آواز میں موسیقی سننا یا شور شرابے میں مستقل رہائش اختیار کرنا سماعت کے لئے انتہائی مضر عمل ہے۔جب کوئی بہت تیز یا زور دار آواز انسانی کان کے اندرونی حصے سے ٹکراتی ہے، تو کان کے اندر موجود بال نما ساخت کے خلیے متاثرہ ہوتے ہیں۔یہ خلیے دراصل ننھے منے کارکن ہوتے ہیں ،جو ہوا میں پھیلنے والے ارتعاش کو انسانی دماغ تک پہنچانے کے ذمے دار ہوتے ہیں، جہاں اس ارتعاش کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے اور وہ آواز کسی گفتگو، شور، چیخ یا دھماکے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔اگر کوئی ناخوشگوار آواز انسانی سماعت تک پہنچتی ہے، تو کانوں میں ایک گھنٹی سی بجنے لگتی ہے اور خطرے کا احساس دلانے لگتی ہے۔اگر یہ عمل مسلسل جاری رہے، تو کان کے خلیات مردہ ہونے لگتے ہیں۔ماہرین کے مطابق 85 ڈیسی بل تک کی آواز میں انسانی سماعت محفوظ ہوتی ہے، لیکن اگر یہ اس سے بڑھنے لگے تو منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 180 ڈیسی بلز آواز کی قوت کانوں کو بہرا کر دیتی ہے۔ڈیسی بل کو ناپنے کے لئے دس کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔دس ڈیسی بلز، ایک ڈیسی بل سے دس گنا زائد ہوتا ہے، لیکن بیس ڈیسی بل (10x10) سو گنا زائد ہوتا ہے اور تیس ڈیسی بل ایک ڈیسی بل سے ایک ہزار گنا زائد ہوتا ہے۔گھریلو استعمال کی اشیاء جیسے واشنگ مشین، ویکیوم کلین اور ٹوسٹر وغیرہ کی آواز 85 ڈیسی بل سے کم ہوتی ہے۔اس لئے ان آوازوں سے خاتونِ خانہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، لیکن اگر گھر میں کسی اور وجہ سے یا اونچی آواز میں میوزک بجانے سے آواز کی شدت ایک سو ڈیسی بل ہو جائے، تو یہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹوں تک برداشت کی جا سکتی ہے، اس کے بعد اس کے ضرر رساں اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔
واضح رہے، دنیا بھر کے تحقیق کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موبائل فون اور ایسے میوزک پلیئرز یا دیگر آلات جو ایئر فون یا ہیڈ فون کے ذریعے سے کان سے منسلک ہوتے ہیں، سماعت میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔یہ خطرہ بالخصوص نوجوان افراد کے لئے زیادہ ہے، کیونکہ بطور فیشن ہیڈ فون کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور نہ صرف میوزک بلکہ موبائل فون کو بھی اب ہیڈ فون کے ذریعے سے استعمال کیا جانے لگا ہے۔اس آلے کے بکثرت استعمال سے سماعت میں کمی کے ساتھ کانوں میں بھنبھناہٹ اور سیٹیاں بجنے کی سی آوازیں آنے کی شکایت بھی لاحق ہو سکتی ہے۔
Browse More Nose And Ear

سماعت کا خیال رکھیں
Samaat Ka Khayal Rakhein

لو تھائی رائیڈ ہارمونز بچے کی نشو و نما پر اثر انداز ہوتے ہیں
Low Thyroid Hormone Bache Ki Growth Par Asar Andaz Hote Hain

فلو وائرل بیماری
Flu Viral Bimari

رات کے آدھے پہر
Raat Ke Aadhe Pehar

کان اور اس کی حفاظت
Kaan Aur Us Ki Hifazat

سائنوسائٹس
Sinusitis

گلے کے امراض
Gale Ke Amraz

"باروٹرما"
Barotrauma

صحت مند دانت صحت مند زندگی
Sehat Mand Dant Sehat Mand Zindagi

سیزنل انفلوئنزا سے کیسے محفوظ رہا جائے!
Seasonal Influenza Se Kaise Mehfooz Raha Jaye

موسم سرما کی آمد آمد”احتیاط کریں“
Mosaam Sarma Ki Amad Amad - Ehtiyat Kareen

کان قدرت کی انمول نعمت۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
Kaan Qudrat Ki Anmol Naimat