Covid 19 - Diabetes Ka Sabab Bhi - Article No. 2030

Covid 19 - Diabetes Ka Sabab Bhi

کووڈ۔19 ذیابیطس کا سبب بھی - تحریر نمبر 2030

کووڈ۔19 اور ذیابیطس کے درمیان ایک مخفی تعلق موجود ہے،جو بہت پریشان کن ہے

پیر 14 دسمبر 2020

28سالہ ماریو بیولنا ایک صحت مند باپ تھا۔جون 2019ء میں جب وہ بخار میں مبتلا ہوا تو اُسے سانس لینے میں بھی بہت دقت ہونے لگی ۔وہ قریبی اسپتال گیا تو جلد ہی تشخیص کے بعد پتا چلا کہ وہ کووڈ۔19 کا شکار ہو چکا ہے۔ہفتوں بعد جب وہ صحت یابی کی طرف مائل تھا تو اس نے بے حد کمزوری محسوس کی اور ایک دن اُس نے قے کرنی شروع کر دی۔یکم اگست 2019ء کی صبح 3 بجے وہ میسا (ایری زونا) میں واقع اپنے گھر کے فرش پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
اس کی بیوی نے قریبی اسپتال کو ٹیلی فون کیا تو ایک ایمبولینس آئی اور اسے اسپتال لے گئی، جہاں ڈاکٹروں نے پہلے اُسے سکتے (COMA) میں جانے سے بچایا۔پھر اسے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل کر لیا ۔ڈاکٹروں نے ماریو کی بیوی سارہ کو بتایا کہ اگر اُسے اسپتال آنے میں دیر ہو جاتی تو وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا تھا۔

(جاری ہے)

انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ ذیابیطس قسم اول کے مرض میں گرفتار ہو چکا ہے۔

یہ جان کر اس کی بیوی بہت حیرت زدہ اور خوف زدہ ہو گئی ،اس لئے کہ ماریو کے پورے خاندان میں ذیابیطس کا کوئی بھی مریض نہیں تھا۔ہوش آنے پر ماریو کی بیوی نے جب اپنے شوہر کو یہ بات بتائی تو وہ بہت حیران ہوا۔ڈاکٹروں نے یہ بتا کر دونوں میاں بیوی کو مزید پریشان کر دیا کہ کووڈ۔19 ہی ذیابیطس کا سبب ہے۔
ماریو کو لاحق ہونے والی ذیابیطس اور اسی طرح کے کیسوں سے یہ ہول ناک انکشاف ہوتا ہے کہ کووڈ۔
19 اور ذیابیطس کے درمیان ایک مخفی تعلق موجود ہے،جو بہت پریشان کن ہے۔دنیا بھر کے ڈاکٹر اور سائنس دان اس تعلق کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بہت سے ماہرین صحت کے مطابق کووڈ۔19 ذیابیطس کے اچانک حملے کا محرک بن سکتا ہے،خاص طور پر بچوں میں جن میں اس قسم کے خطرے کی علامات واضح نہیں ہوتی ہیں۔یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جو افراد ذیابیطس میں مبتلا ہوتے ہیں،وہ اگر کووڈ۔
19 کا شکار ہو جائیں تو شدید بیماری یا موت کے امکانات قریب آجاتے ہیں۔جولائی 2019ء میں ماہرین صحت کے ایک بیان کے مطابق تقریباً 40 فیصد لوگ جو کووڈ۔19 میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں،انھیں ذیابیطس کی بیماری بھی لاحق تھی۔
ماریو بیولنا کے کیس کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ بیماریوں کے درمیان جو تعلق ہے،وہ دونوں طرف سے شدت اختیار کر لیتا ہے۔
کنگز کالج لندن سے وابستہ ڈاکٹر فرانسیسکو روبینو (Dr.Francesco Rubino) جو بہ ذریعہ سرجری فربہی میں کمی اور ہضم و جذب کے نظام کی درستی کے شعبوں کے نگراں ہیں اور آج کل ذیابیطس پر تحقیق کر رہے ہیں،انھوں نے بتایا کہ کووڈ۔19 ایک خراش پڑنے پر بھی ذیابیطس کا سبب یا محرک بن سکتا ہے اور اب اس قسم کے کیس دنیا کے ہر کونے سے آرہے ہیں۔امریکا کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ مذکورہ تحقیق پر سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہ معلوم کرنے کی تگ ودو کر رہا ہے کہ کورونا وائرس ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کا کس طرح سبب بن سکتا ہے ۔
ایسی صورت حال میں علامتیں تیزی سے شدت اختیار کرکے زندگی کو موت کے قریب کر سکتی ہیں ۔کووڈ۔ 19 کے خطرے کی زد میں آنے کے بعد اس قسم کے کیس پیچیدگی اختیار کر سکتے ہیں اور ان کے ظاہر ہونے میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔چنانچہ مسئلے کی تہ اور پھیلاؤ کے اسباب تک پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔اس ضمن میں مزید تحقیق کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کووڈ۔
19 بڑے پیمانے پر ذیابیطس کا محرک بن رہا ہے،ایک ممتاز ڈاکٹر رابرٹ ایکل (Dr.Robert Eckel) نے کہا کہ جوابات کی نسبت ہمارے ذہنوں میں سوالات بہت سارے ہیں،جو گردش کرتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر رابرٹ ایکل امریکا کی ذیابیطس ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔اُن کے مطابق اس وقت ہم بالکل ایک نئی قسم کی ذیابیطس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ذیابیطس قسم اول اس وقت لاحق ہوتی ہے،جب جسم کی مدافعتی قوت (Immunity) غلطی سے لبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے خلیات (سیلز) کو تباہ کر دیتی ہے اور خون میں شکر کی سطح کو مناسب رکھنے کے عمل کی حفاظت کرتی ہے۔
امریکا میں تقریباً 16 لاکھ امریکیوں کو یہ بیماری لاحق ہے۔اس کے علاوہ امریکا میں ذیابیطس قسم دوم بھی عام ہے اور تقریباً 3 کروڑ امریکی اس بیماری کا شکار ہیں۔ایسے مریضوں میں انسولین تو پیدا ہوتی ہے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے جسم کے خلیات انسولین سے مزاحمت کرنے لگتے ہیں اور خون میں شکر کی سطح میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔
ذیابیطس قسم اول کے کیسوں کا تعلق پہلے ہی سے دوسرے وائرس تعدیوں (انفیکشنز) سے ہوتا ہے،جن میں انفلوئنزا اور کورونا وائرس بھی شامل ہیں۔
تعدیے جسم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور خون میں شکر کی سطح میں اضافہ کر سکتے ہیں،لیکن ایسا اُن لوگوں میں ہوتا ہے،جن میں بیماری پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی،ان میں سے صرف چند میں ذیابیطس قابو سے باہر ہو جاتی ہے،ایسا کیوں ہوتا ہے،سائنس دان ابھی تک یہ بات پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس سال ڈاکٹروں کے ریکارڈ میں ایسے افراد بھی ہیں،جو ذیابیطس قسم دوم میں مبتلا ہیں،لیکن ان کو زیادہ خطرات لاحق نہیں ہیں۔
ان میں فربہ اور بوڑھے افراد شامل ہیں۔جو کووڈ۔19 کے خطرے کی زد میں آنے کے بعد ذیابیطسی ہنگامی حالت کے تجربے سے بھی گزرتے ہیں ۔ذیابیطس قسم اول کی ابتدائی علامتوں میں شدید پیاس،تھکاوٹ،پیشاب کی زیادتی اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ماریو کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس قسم کی علامتیں مرض کے لاحق ہونے کے اشارے ہوتے ہیں۔چند دن قبل اس نے اور اس کی بیوی سارہ نے دیکھا کہ اُن کے 12 سالہ لڑکے ایٹی کس (Atticus) کا وزن کافی گر گیا ہے،وہ دبلا پتلا ہو گیا ہے اور نیند میں زیادہ رہنے لگا ہے۔
دونوں میاں بیوی نے اندازہ لگایا کہ عالمی وبا کے باعث سب کی طرح چونکہ ایٹی کس بھی گھر میں قید ہو گیا ہے اور اس قید کے اثر اور طوالت سے نڈھال وبیزار ہو گیا ہے۔9 جولائی 2019ء کو جب علامتوں نے شدت اختیار کر لی تو ماریو اپنے لڑکے کو قریبی طبی مرکز لے گیا،جہاں ڈاکٹر نے لڑکے کا معائنہ اور ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ اس کے خون میں شکر کی مقدار بہت بڑھ چکی ہے اور پیشاب میں کیتونی جسمیوں (Ketones) کا غیر معمولی اخراج ہورہا ہے،یعنی دونوں علامتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایٹی کس ایسی ذیابیطس میں مبتلا ہو چکا ہے،جس میں جسم کے سیال مادوں اور بافتوں (ٹشوز) میں کیتونی جسیمے جمع ہو چکے ہیں۔
اسے طبی اصطلاح میں کیتونی ذیابیطس (Diabetic Ketoacidosis) کہتے ہیں۔ڈاکٹر نے کہا کہ ایٹی کس کو فوراً اسپتال میں داخل کرنا پڑے گا،اس لئے کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اس نئی قسم کی ذیابیطس کی وجہ سے وہ سکتے میں نہ چلا جائے۔ماریو نے جب آمادگی ظاہر کی تو ایک ایمبولینس انھیں 50 میل دور ایک جگہ لے گئی،جس کا نام رینو تھا اور یہیں اسپتال واقع تھا۔اسپتال میں بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ایٹی کس کو داخل کر لیا گیا۔
ماریو لڑکے کے پاس وہاں تین دن رہا۔اُس نے ٹیلی فون پر اپنی بیوی کو سارا حال بتا دیا۔اسپتال میں مریض کے ساتھ شوہر ٹھیر سکتا تھا یا بیوی، دونوں کو ٹھیرنے کی اجازت نہیں تھی۔یہ احتیاط اسپتال میں کورونا وائرس کے تعدیے کے خطرے کی وجہ سے لازمی تھی۔
شام میں ماریو نے ڈاکٹرسے دریافت کیا:”ڈاکٹر صاحب!میرے لڑکے کو ذیابیطس کیسے ہو گئی،یہ میرے لئے انتہائی حیرت انگیز ہے؟“ ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کا لڑکا کورونا وائرس کا شکار ہو چکا ہے،اس لئے کہ چند مہینے پہلے آپ اور آپ کی بیوی میں بھی کورونا وائرس کی علامتیں ظاہر ہوئی تھیں،لیکن اس وقت ٹیسٹ کے انتہائی سخت معیار کی وجہ سے آپ دونوں کورونا کا ٹیسٹ نہیں کرا سکے تھے۔

ایٹی کس کے پچھلے طبی ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اس کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آئی تھی،لیکن اس کے ضد اجسام (Antibodies) کا ٹیسٹ کبھی نہیں ہوا تھا،ورنہ ہفتوں پہلے ہی کورونا وائرس کا معلوم ہو جاتا۔
کووڈ۔19 سے تعلق رکھنے والی ذیابیطس پر کی گئیں ابتدائی تحقیقات اور رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ بچوں کو زیادہ شکار کر رہی ہے۔
لندن کے امپیرئل کالج میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کئی اسپتالوں کے ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ کووڈ کی وبا نے جب بھی زور پکڑا تو ذیابیطس قسم اول نے بچوں کو زیادہ متاثر کیا اور اس قسم کے کیس زیادہ بڑھے۔ایک اسپتال میں جب پانچ بچوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان کے ٹیسٹ مثبت آئے،لیکن بہت سارے بچوں کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے تھے۔لاس اینجلس میں بچوں کے ایک اسپتال کے مطابق ذیابیطس قسم دوم کے نئے تشخیص شدہ مریض بچے جو کیتونی ذیابیطس میں مبتلا تھے،ان کے خون میں تیزاب کی بہت زیادہ مقدار پائی گئی،جو مہلک ثابت ہو سکتی تھی۔
ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹر للی چاوٴ (Dr.Lily Chao) نے بتایا کہ اسپتال کا طبی عملہ یہ کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مذکورہ مریض بچوں میں تیزاب کی جمع شدہ زیادہ مقدار کا سبب کووڈ۔19 ہی ہے یا کوئی اور سبب ہے۔اسپتال کی ایک تجربہ کار نرس برینڈی ایڈورڈز (Brandi Edwards) کے مطابق جب کوئی بچہ مذکورہ کیفیت میں اسپتال میں لایا جاتا ہے تو اُسے ایمرجنسی روم یا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔
بعدازاں وہ بچے کے والدین سے انسولین کے انجکشنوں اور گلوکوس مانیٹر کی بابت بات چیت کرتی اور انھیں صلاح مشورہ دیتی ہے۔برنیڈی کہتی ہے کہ میں نے رواں برس دیکھا ہے کہ ذیابیطس قسم اول میں مبتلا بہت زیادہ بچے اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیے جا چکے ہیں،اس سے قبل اتنے کیس کبھی نہیں آئے تھے۔
ابتدائی ہنگامی حالات سے نکلنے کے بعد نئی ذیابیطس کے تشخیص شدہ مریض کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہر ماہ علاج معالجے اور ادویہ پر بے تحاشا پیسے خرچ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ دروں افرازی ماہر (Endocrinologist) سے وقت لے کر اس سے ملنے کے لئے طویل عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور ایسا امریکا کے بہت سے شہروں میں ہوتا ہے۔ماریو بیولنا ایری زونا میں رہتا تھا،اُسے بھی ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ذیابیطس قسم اول تشخیص ہونے کے بعد اسے دو مہینوں سے زیادہ عرصے تک گلوکوس مانیٹر کے حصول کے لئے وفاق کی نافذ کردہ بیمہ صحت کی امدادی رقم کا انتظار کرنا پڑا۔
اس بیماری نے اُسے طویل عرصے تک بے کار رکھا اور معاشی طور پر اس کا دیوالیہ نکل گیا۔اس کی دوسری بیوی ایریکا 8 ماہ کی حاملہ تھی،اُن کی 3 سالہ ایک بیٹی کیٹا لینا بھی تھی۔ایک دن اچانک ماریو بیولنا کی بیوی کو علاقہ بدری کا ایک نوٹس ملا،جب کہ ماریو اپنے صاحب زادے کے ساتھ اسپتال میں تھا۔گھر میں اُن کے پاس کھانے پینے کی تھوڑی سی اشیاء ہی بچی تھیں۔ان کی زندگی طوفان کی زد میں تھی اور طوفان دھیرے دھیرے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔کووڈ۔19 نے لاکھوں خاندانوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور یہ خاندان بھی تباہی کے دہانے پر پہنچنے والا تھا:
کشتیاں ڈوب گئی ہیں اپنی+ اب لیے پھرتا ہے دریاہم کو

Browse More Sugar