Sugar Ke Mareezon Ki Sharah Mein Izafah - Article No. 1367

Sugar Ke Mareezon Ki Sharah Mein Izafah

شوگر کے مریضوں کی شرح میں اضافہ - تحریر نمبر 1367

جمعہ 14 ستمبر 2018

ڈاکٹر محمد ارشد صدیقی

پاکستان میں بقائی انسٹی ٹیو ٹ آف ڈائی بیٹالوجی اینڈ انڈ و کئیرائینالوجی (BIDE)،نیشنل منسٹری آف ہیلتھ(NMH) اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کے باہمی اشتراک سے کیے گئے نیشنل ذیابیطس سروے آف پاکستان (NDSP) کے مطابق پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی شرح% 22 سے بڑھ کر% 26.3 ہو گئی ہے جن میں سے% 19.2 مریض اپنے مرض سے واقف ہیں جبکہ 7.1فیصد مریض نا بلد ہیں ۔

اسی سروے میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ شہروں میں شوگر کے مریضوں کی شرح (Urban Diabetes) 28.3% جبکہ دیہی علاقو ں میں یہ شرح% 25.3 ہے ۔پاکستان میں شو گر سے متعلقہ یہ خطرناک اعدادوشمار دنیا میں موجود اعدادوشمار کی ایک جھلک ہیں ایک تحقیق کے مطابق 2010ءسے2030ءتک پوری دنیا میں شوگر کے مرض میں کل 67% کی شرح تک اضافہ ممکن ہے اوریہی وجہ ہے کہ ہر 6سیکنڈ کے بعد دنیا کے کسی کونے میں مرنے والا فرد شوگرکا مریض ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ذیا بیطس انسانی جسم کے تمام ا عضاءکو متاثر کرتی ہے اس میںدل ، دماغ ، گردے ،خون میں کولیسٹرول کی مقدار میں اضافہ اور اعصابی نظام سرفہرست ہیں اعصابی نظام کے متاثرہونے کی وجہ سے پاﺅں کی بیماری (Foot Disease)--جس میں پاﺅں کے زخم (Ulcer)، سوزش (Infection)شامل ہیں--کا مناسب اور بروقت علاج مہیا نہ ہونے کی صورت میں پاﺅں یا ٹانگ(Lower Exptremity Amputation)کاٹ دی جاتی ہے ہر بیس سیکنڈ کے بعد دنیا میں شوگر سے لاحق ایک مریض اپنی ٹانگ کھو بیٹھتا ہے یاد رہے کہ چند سال قبل تک یہ شرح ہر تیس سیکنڈ تھی جو اب بڑھ کر بیس سیکنڈ ہوگئی ہے
Diabetic Foot Diseaseاور ذیا بیطس کے حوالے سے ڈاکٹرز ، پالیسی ساز ادارے ، عوام اور معاشرے، میڈیا اورسول سو سائٹی میں آگاہی اور شعوربیدار کرنے کے لئے
نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبٹیزایجوکیٹرز آف BIDE نے پاکستان ورکنگ گروپ اور فوٹ ڈائبٹیز اینڈ فوٹ کیئر کلینک (DFC)کے اشتراک کے ساتھ گزشتہ دنو ں لاہور میں بین الاقوامی کانفرنس FOOTCONکا اہتمام کیا گیا جس کا عنو ان تھا "Saving Feet"اس کانفرنس میں Diabetic Foot Diseaseکے مختلف پہلو ﺅں پرتحقیقی مقالے ، Talks، لیکچرز اور ورکشاپ کا اہتمام کیا گیاتھا ۔
افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وائس چانسلرکنگ ایڈورڈمیڈ یکل یو نیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل تھے جنھو ں نے اس کانفرنس کی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کی اور شوگر کی آگاہی اورروک تھام کی کوششوں کو سراہا۔
اس موقع پر پاکستان ورکنگ گروپ آن ڈائی بیٹک فٹ کے صدر پروفیسر عبدالباسط نے فٹ کان کانفرنس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد شوگر سے متاثرہ پائوں ان کے زخم اور ان سے ہونے والی Amputationsکی روک تھام کرنا ہے ۔
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 36ملین ذیا بیطس کے مریض ہیں اور دنیا میں ہرتیس سیکنڈ میں شوگر کی وجہ سے ایک ٹانگ ضائع ہوجاتی ہے ،شوگر کے مریضو ں میں غذائی تبدیلیا ں، وزن میں کمی اور روزانہ کی ورزش صحت مند زندگی کی ضمانت ہیں۔ حکومتی سطح پر مو ثر اور جدید ذریعے استعمال کرنے سے اس کی شرح میں کمی کی جا سکتی ہے ۔
(NADEP)کے صدر ڈاکٹرزاہد میاں نے خطاب کرتے ہوئے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ دو لاکھ 70ہزار مریض پائوں اور ٹانگیں کٹنے کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، خوش قسمتی سے ان میں سے 80فیصد افرادکے اعضاءکو علاج اور آگہی کے ذریعے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ایسے جوتے تیار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پائوں کی بہتر حفاظت ہو سکتی ہے اور یہ جوتے یورپین مشینوں کے ذریعے تیار کیے جانے کے باوجود نہایت ارزاں قیمت پر مریضوں کو مہیا کیے جاتے ہیں۔
افتتاح کے موقع پر پروفیسر بلال بن یونس نے کہا کہ شوگر کے
مریضو ں میں غذائی تبدیلیا ں، وزن میں کمی اور روزانہ کی ورزش صحت مند زندگی کی ضمانت ہیں ۔لہذا عوام میں شوگر کی روک تھام کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ میو ہسپتال فٹ کئیر کلینک کے انچارج ڈاکٹر محمد ارشد صدیقی نے کہا کہ پاﺅں کے السر کی بروقت تشخیص اور فوری علاج سے پاﺅں کی معذ وری سے بچا جاسکتاہے ۔

اس کانفرنس کو مختلف سیشن میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مختلف سینئر پروفیسرزنے سیشن سربراہی کی ۔ایک اہم سیشن کی سربراہی رجسٹرار کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ارشاد حسین قریشی نے کی۔جس میں انہو ں نے ذیا بیطس کی بروقت تشخیص اورعلاج کی ضرورت پرزور دیا۔
دوسرے روز پاکستان میں پہلی مرتبہ انجکشن کے ذریعے انسولین لگانے کی گائیڈلائن جاری کی گئیں،پاکستان میں ذیا بیطس کے مریضوں کی تعداد 3کروڑ 50لاکھ سے زائد ہے جن میں سے صرف 4سے 5لاکھ مریض اپنی شوگر کنٹرول کرنے کے لئے انسولین کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروںذیا بیطس کے مریض شوگر بڑھ جانے کے نتیجے میں اپنی ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور کچھ عرصے میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، دوسری طرف غلط انسولین ا ستعمال کرنے والے مریضوں کو آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات اپنے ہاتھوں اور پیروں سے محروم ہونا پڑتا ہے، کانفرنس سے بیلجیئم سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کرسٹین وین ایکر،تھائی لینڈ کے ڈاکٹر گلاپار سیری واسدی، انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن مینا ریجن کے سربراہ پروفیسر عبد الباسط، تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہر امراض ذیا بیطس ڈاکٹر ذوالفقار جی عباس، کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر زاہد میاں،متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر حمید فاروقی،پروفیسر بلال بن یونس، مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر طارق فیاض، پروفیسر جمال ظفر،ڈاکٹر عصمت نواز، ڈاکٹر سیف الحق، ڈاکٹر مسرت ریاض، ڈاکٹر ظفر عباسی،ڈاکٹر ارم غفورنے بھی خطاب کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تنزانیہ کے ماہر امراض ذیا بیطس پروفیسر ذوالفقار جی عباس کا کہنا تھا کہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی ذیا بیطس کا شکار ہوکر پائوں کٹنے کے خدشات سے دور چار ہے،انسولین کا استعمال ذیا بیطس پر کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے،جن لوگوں کے پائوں میں شوگر کی وجہ سے زخم ہوجائیں انہیں انسولین کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ ان کی ٹانگوں کو کٹنے سے بچایا جا سکے، ،انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن مینا ریجن کے سربراہ پروفیسر عبد الباسط کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے طول و ارض میں ایک سو پندرہ فٹ کلینک قائم کیے ہیں،جہاں پرذیا بیطس میں مبتلا مریضوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کرکے ان کے اعضاءکو کٹنے سے بچایا جا تا ہے، انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد ذیا بیطس کے نتیجے میں ہونے والی تبا ہ کاریوں سے آگہی پھیلانا، ضرورت مند مریضوں کو انسولین کے استعمال کی طرف راغب کرنا، انسولین کو استعمال کرنے کی آگہی فراہم کرنا اور غلط طریقوں سے انجکشن لگانے کی ممکنہ تباہ کاریوں سے مریضوں کو بچانا ہے،بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائی بیٹالوجی اینڈ انڈ و کئیرائینالوجی سے وابستہ ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ انسولین ایک جان بچانے والا محلول ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں،بد قسمتی سے پاکستان میں انسولین استعمال کرنے والوں مریضوں کی تعداد بہت کم ہے ان میں سے بھی مریضوں کی اکثریت انسولین کو غلط طریقے سے لگاتی ہے،انہوں نے اس موقع پر انسولین لگانے کی سفارشات (گائیڈلائن) پیش کیں اور ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ وہ اپنے مریضوں کو Forum for Injection Techniques (FIT)گائیڈ لائینز سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنے آپ کوذیا بیطس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں، ان کا کہنا تھا کہ پیٹ کے حصے میں لگائی جانے والی انسولین کا اثر سب سے بہتر ہوتا ہے، جبکہ رانوں کے سامنے والے حصے میں بھی موثر طریقے سے اثر کرتی ہے،ارم غفور کا کہنا تھا کہ انسولین کے استعمال سے ذیا بیطس کے نتیجے میں ہونے والے پیچیدگیوں پر قابو پا کر عام انسانوں کی طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

کانفرنس کے آخری اورتیسرے روز امریکی ماہر غذائیت باربرا آئی کورسٹ اورشیخ زید ہسپتا ل لاہور کی کارڈیا لو جسٹ ڈاکٹر امبر ملک نے خطاب کیا ۔
انٹر نیشنل ذیابیطس فیڈریشن مشرق وسطیٰ اور نارتھ افریقہ کے صدر پروفیسر عبد الباسط کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں چار لاکھ ذیا بیطس کے مریض پیروں میں ہونے والے زخموں کی مصیبت میں مبتلا ہیں،جن مین سے 8سے10فیصد مریض اس مرض کے نتیجے میں مستقل معذوری کا شکار ہو رہے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پورے پاکستان میں 115 ڈا¾یبیٹک فُٹ کلینک قائم کیے ہیں مگر یہ تعداد ناکافی ہے اور ان کا مشن ہے کہ ایسے کلینکس کی تعداد 600تک بڑھادی جائے،کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر زاہد میاں نے کہا کہ ڈاکٹروں میں آگہی نہ ہونے کے سبب ذیا بیطس کے مریضوں میں پائوں کٹنے کی شرح میں اضافہ ہو رہاہے،ان کا کہنا ہے کہ خصوصی طور پر تیار شدہ جوتوں کے استعمال سے پائوں کٹنے کی شرح میں 70سے 80فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے،امریکی ماہر امراض ذیا بیطس ڈاکٹر عظمیٰ خان کا کہنا تھا کہ۔
ذیابیطس کے مریضوں میں پائوں کی حسیات ختم ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے پائوں میں لگنے والی چوٹ،آگ یا کسی بھی طرح کے زخم کو محسوس نہیں کرپاتے اور اکثر ان کے پیروں کے زخم خراب ہوکر ناسور بن جاتے ہیں، ذیا بیطس کے مریضوں کو ہر روز اپنے پیروں کا معائنہ کرنا چاہیے اور پیروں میں کسی بھی طرح کے تبدیلی کی صورت میں اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

آخری روز اعلامیہ میں درج ذیل تجاویز پرمشتمل قرارداد کثر ت رائے سے منظور کی گئی
District Head Quarter -1کی سطح پر Diabetes and Footcare Clinic (DFC) کا انعقاد کیا جائے
-2ڈاکٹرز کی Footcareکے حوالے سے Structured Trainingکا آغاز کیا جائے
-3پاکستان میں Diabetic Foot Diseaseکا ڈیٹا رجسٹر ی قا ئم کرکے Local Guidlinesپرکام شروع کیاجائے
-4صحت کے پالیسی ساز اداروں ، عوام اور معاشرے اور میڈیا و سول سوسائٹی کے ذریعے مرض کی روک تھا م کے لئے عام تعلیم سے لے کر قانو ن سازی تک اقدامات کیے جائے
Life Style Changes -5لانے کے لئے تعلیمی ادارو ں کی سطح پر نصاب پر موثر تبدیلی لائی جائے ۔

Browse More Sugar