Motape Se Kayi Amraz Lahaq - Article No. 1707

Motape Se Kayi Amraz Lahaq

مٹاپے سے کئی امراض لاحق - تحریر نمبر 1707

مٹاپے سے نجات کے لیے ورزش بہت ضروری ہے اور کم خوراک بھی لازمی ہے۔بے شمار موٹے افراد آج بھی دُبلے ہونے کی دوا پوچھتے ہیں

جمعرات 24 اکتوبر 2019

سید رشید الدین احمد
مٹاپے سے نجات کے لیے ورزش بہت ضروری ہے اور کم خوراک بھی لازمی ہے۔بے شمار موٹے افراد آج بھی دُبلے ہونے کی دوا پوچھتے ہیں،مگر اپنی غذائی عادات بدلنے اور ورزش اختیار کرنے کی نہیں سوچتے۔مرد تو پھر بھی کچھ چل پھر لیتے ہیں،لیکن خوش خوراک خواتین اچار کا گھڑا بنیں گھروں میں پڑے ہائے ہائے کرتی رہتی ہیں۔


مٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے والے امراض میں قلب کی تکلیف،ہائی بلڈ پریشراور ذیابیطس خاص طور پر شامل ہیں۔موٹے افراد میں عام طور پر صحت وتوانائی کی بھی بڑی کمی رہتی ہے۔جسمانی طور پر ان کے لیے چلنا پھر نا دوبھر رہتا ہے،خاص طور پران میں قوت برداشت کم ہوتی ہے۔پھرتی ،جسمانی لچک اور جسم کی حرکات میں ضروری ربط بھی نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

قدم ٹھیک طور پر نہیں اٹھتے ۔

چلنے پھرنے ،کام کے دوران اور اٹھنے بیٹھنے میں بھی روانی اور ہم آہنگی نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ اپنے گول گپا حُلیے اور غیر معمولی ڈیل ڈول کے احساس کی وجہ سے جذباتی مسائل بھی انھیں درپیش ہوتے ہیں۔
مٹاپے کے جانچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جسم کے مجموعی وزن میں چربی کے فی صد تناسب کا اندازہ لگا یا جائے ۔ایک اوسط قدوقامت کے مرد اور خاتون کے جسم میں 20اور25فیصد سے زیادہ چربی نہیں ہونی چاہیے۔
اچھے کھلاڑیوں اور سخت ورزش کرنے والوں کے جسم میں 10اور15فیصد سے زیادہ چربی نہیں ہوتی۔
مٹاپے کی پیمایش یا اندازہ لگانے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی کمر کے گوشت کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے چٹکی میں لیں۔اگر چٹکی میں آنے والا گوشت 3سینٹی میٹر سے زیادہ ہوتو آپ گویا اپنی مقررہ حد سے زیادہ موٹے ہیں۔
مٹاپے کا اندازہ قد اور وزن کے چارٹ سے بھی لگایا جاتاہے ،لیکن یہ یقینی پیمانہ نہیں ہے ،کیونکہ خوب بنے اور کسے ہوئے عضلات اور پٹھوں والے کھلاڑی کا وزن اس کے ٹھوس گوشت کی وجہ سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے،لیکن اگر اس کی چربی 20فیصد سے کم ہے اور اس کا زیادہ وزن اس کے خوب بنے ہوئے پٹھوں کی وجہ سے ہے تو اسے موٹا قرار نہیں دینا چاہیے۔
اس کا یہ وزن عضلات کا ہے،چربی کا نہیں اور عضلات صحت وتوانائی کاخزانہ ہوتے ہیں۔
ایک سیدھا اور آسان اصول یہ بھی ہے کہ آپ اس وقت کا وزن یاد کریں ،جب بالکل فٹ ،توانا اور تندرست تھے۔صحت مند اور فٹ رہنے کے لیے اپنا وزن اسی سطح پر لانے کی کوشش کریں اور اسے زندگی بھر بر قرار رکھیں۔
اکثر لوگ20سے 30سال کی عمر میں بالکل فٹ اور تندرست رہتے ہیں،گویا اس عمر میں ان کا وزن درست رہتا ہے۔
بعض لوگ 16سے20سال کی عمر تک بالکل فٹ ہوتے ہیں۔انھیں چاہیے کہ اپنا وزن اسی سطح پر لے آئیں اور پھر زندگی بھر اسے اسی سطح پر برقرار رکھیں۔اسی قسم کے لوگ سدا بہار کہلاتے ہیں۔
اچھی صحت اور مٹاپے سے محفوظ رہنے کے لیے چند کار آمد باتیں ذہن میں رہنی چاہییں،مثلاًوزن کم کرنے کی درست اور بہتر شرح فی ہفتہ 250گرام سے 500گرام ہونی چاہیے۔اس کی روشنی میں اخبارات میں گھنٹوں میں سیروں وزن کم کرنے کے دعوؤں کو جانچیں ۔
یہ سراسر دھوکے ہوتے ہیں اور بہ کثرت پیشاب لا کر یہ کار نامہ سر انجام دیا جاتا ہے ۔اس سے جسم کاپانی خارج ہوجاتاہے،لیکن چربی جوں کی توں رہتی ہے،بلکہ بسا اوقات پانی کی شدید قلت ہو جانے کی وجہ سے جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔مناسب غذا اور باقاعدہ ورزش کے ذریعے ہی وزن مذکورہ شرح سے کم کرنا چاہیے۔
مناسب غذاکامطلب دن بھر کی غذا میں10سے 30فیصد کمی ہے ،لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ متوازن غذا کھائی جائے ،جس میں نشاستے (کار بو ہائیڈریٹ )دار غذاؤں کا تناسب 65 فیصد،چکنائیوں کا 20اور لحمیات(پروٹینز)کا تناسب 15فیصد ہو۔

ہوازا(ایروبک)ورزشیں ،مثلاً چہل قدمی،سائیکلنگ ،تیز قدمی ،تیرا کی ،فٹ بال ،والی بال ،باسکٹ بال،اسکوایش اور ٹینس بہت موٴثر اور مفید کھیل ہیں ۔ان ورزشوں سے وزن گھٹتا ہے تو جسمانی توانائی، چستی اور تندرستی میں بھی اضافہ ہوتاہے۔
حسن افزاورزشیں ،مثلاً بیٹھکیں لگانا،جسم کو مختلف انداز میں موڑنا یا بل دینا،پنجوں کو چھونا، چستی تو پیدا کرتی ہیں ،لیکن چوں کہ ان میں توانائی کم خرچ ہوتی ہے،اس لیے ان سے چربی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

احتیاط کیجئے
اگر آپ کی طبیعت نا ساز ہوتو سخت قسم کی ورزشیں نہ کیجئے۔زیادہ بیمارہوں تو اور بھی احتیاط کیجیے۔جب آپ بالکل صحت یاب ہو جائیں،تب اپنا ورزشی پروگرام دھیرے دھیرے توانائی کے مطابق بحال کیجیے۔ضرورت سے زیادہ جوش اور خود اعتمادی سے کام لے کر سخت ورزش سے بچیں۔مرض کی نوعیت اور شدت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے ،بلکہ معالج سے مشورہ کر لینا سلامتی وصحت کا درست اور صحیح راستہ ہے۔

Browse More Weight Loss