آرمی چیف نے اپنے خطاب میں جوباتیں کیں یہ سب کچھ ایک حاضر سروس جنرل یا پاک فوج کے سربراہ نے نہیں ، کسی سیاست دان یا حکومتی سربراہ نے کہا ہوتا تو یقیناً پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عش عش کر اٹھتا، لوگ کہتے کہ آخرکار ملک کو وہ رہنما مل ہی گیا جو جنرل ضیاء کے پھیلائے شیطانی عمل کو لپیٹ سکے ،غیر ریاستی عناصر کے خطرے کے مقابلے کیلئے فوج نہیں ایک مضبوط سویلین سکیورٹی اور حکومتی عزم چاہیے، کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو کیا موجودہ آرمی چیف کا ڈوبتے جہاز کو بچانے کا فارمولا وہی ہو گا جو پرویز مشرف کا تھا؟ ،

برطانوی نشریاتی ادارے کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دفاعی نمائش آئیڈیاز2014سے خطاب بارے تجزیاتی رپورٹ

جمعہ 5 دسمبر 2014 21:37

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5دسمبر 2014ء ) برطانوی نشریاتی ادارے نے آرمی چیف کے دفاعی نمائش آئیڈیاز2014سے خطاب کے حوالے سے رپورٹ میں کہاکہ جنرل راحیل شریف نے جوباتیں کیں یہ سب کچھ ایک حاضر سروس جنرل یا پاک فوج کے سربراہ نے نہیں بلکہ ایک سیاست دان یا حکومت کے سربراہ نے کہا ہوتا تو ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا؟۔یقیناً پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عش عش کر اٹھتا۔

لوگ کہتے کہ آخرکار ملک کو وہ رہنما مل ہی گیا جو اس شیطانی عمل کو لپیٹ سکے جس کے ذریعے جنرل ضیا نے ایک ہنستے کھیلتے ملک کو جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا اکھاڑا بنا دیا، امریکہ کی جنرل راحیل شریف کے بارے میں وہ رائے نہیں جو جنرل مشرف یا جنرل کیانی کے بارے میں تھی۔ کچھ کے خیال میں تو وہ امریکہ کو سمجھانے ہی یہ گئے تھے کہ نہ تو وہ مشرف ہیں اور نہ ہی کیانی اور بظاہر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب لوٹے ہیں، غیر ریاستی عناصر کے خطرے کے مقابلے کے لیے فوج نہیں ایک مضبوط سویلین سکیورٹی اور حکومتی عزم چاہیے، کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو کیا موجودہ آرمی چیف کا ڈوبتے جہاز کو بچانے کا فارمولا وہی ہو گا جو پرویز مشرف کا تھا؟،اس کا جواب ہمیں تبھی ملے گا جب یہ واضح ہو گا کہ جنرل راحیل شریف ہی نہیں بلکہ تمام شریف وہی بات کہہ رہے ہیں جو فی الوقت صرف ایک امریکہ پلٹ جرنیل کہہ رہا ہے۔

(جاری ہے)

جمعہ کو برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہاگیا کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر صرف ملک کے قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے چپے چپے میں یا تو براہ راست یا اپنے مذہبی اور سیاسی حواریوں کے ذریعے پھیلے ہوئے ہیں۔کیا یہ سب کچھ وہی نہیں جسے سننے کی تمنا کروڑوں پاکستانیوں کو برسوں سے ہے؟جنرل راحیل شریف نے کہاہے کہ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سکیورٹی متاثر ہو رہی ہے اور ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورتِ حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔

ان کا تجزیہ ہے کہ سکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا نہایت مشکل۔ان کا اصرار ہے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمہ داری ہے اور خاص طور پر یہ کہ پاکستانی عوام کی حمایت کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے ملک میں دہشت گردی کو ختم کر دیا جائے گا۔فرض کریں کہ یہ سب کچھ ایک حاضر سروس جنرل یا پاکستان کی بری فوج کے سربراہ نے نہیں بلکہ ایک سیاست دان یا حکومت کے سربراہ نے کہا ہوتا تو ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا؟۔

یقیناً پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عش عش کر اٹھتا۔ لوگ کہتے کہ آخرکار ملک کو وہ رہنما مل ہی گیا جو اس شیطانی عمل کو لپیٹ سکے جس کے ذریعے جنرل ضیا نے ایک ہنستے کھیلتے ملک کو جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا اکھاڑا بنا دیا۔مذہبی طبقوں میں شاید یہ بیان کچھ اضطراب پیدا کرتا لیکن بایاں بازو تو جھوم اٹھتا۔ رہی بات دائیں بازو کی تو اس کا کیا، وہ دایاں کہلاتا ہی اس لیے ہے کہ حاکم وقت کے ساتھ رہے۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا جب جنرل راحیل شریف صرف شریف ہی ہوتے، جرنیل نہیں۔پاکستان کے کئی سینئیر سرکاری اہلکار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ داعش پاکستان میں صرف وال چاکنگ اور پیمفلیٹوں میں ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے۔رپورٹ میں کہاگیاکہ قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ باتیں پاکستان میں پہلے بھی ہوئی ہیں۔

ٹھیک 15 برس پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے چند مدیران کو خاص طور پر کراچی کے فوجی ہیڈکوارٹرز میں بلا کر کہا تھا کہ اگر ایک جہاز ڈوب رہا ہو اور اس میں عوام اور سیاست دانوں کے ساتھ فوج بھی سوار ہو تو کیا فوج کو صرف اس لیے چپ کر کے بیٹھے رہنا چاہیے کہ جہاز بچانے کی ذمہ داری سیاست دانوں کی ہے؟۔اور پھر جواباً خود ہی عرض کیا کہ ہرگز نہیں۔

اس کے چند ہی ماہ بعد انھوں نے حکومت کا تختہ الٹا اور ڈوبتا جہاز بچانے خود آ ٹپکے۔اور پھر وہی جنرل مشرف تھے جنھوں نے جنوری سنہ 2002 میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان نے دنیا بھر میں جہاد کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ ملک میں نہ تو کسی لشکر کی جگہ ہے نہ کسی سپاہ کی اور نہ کسی جیش کی اور سوائے حکومت کے کوئی کسی کو جہاد کے لیے نہیں پکار سکتا۔

رپورٹ میں کہاکہ جب تک موصوف اقتدار سے الگ ہوئے، ملک میں چار سو لشکر، سپاہ اور جیش پھیلے تھے اور معاملہ اس قدر بگڑ چکا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ایک مسجد اور مدرسے سے چند طالبات اور کچھ گنے چنے جنگجووٴں کو نکالنے کے لیے ہمیں اپنے کئی فوجی کمانڈو قربان کرنے پڑے۔رپورٹ میں کہاگیاکہ تاریخ پر اس نظر کا مقصد جنرل راحیل شریف کی نیت یا ارادوں پر شک کرنا نہیں ہے، بلکہ اس خوف کی طرف توجہ دلانا ہے جو پاکستانیوں کے دل میں ہر باوردی بیان سے جڑا ہوتا ہے۔

ملک بھر کے تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کی جنرل راحیل شریف کے بارے میں وہ رائے نہیں جو جنرل مشرف یا جنرل کیانی کے بارے میں تھی۔ کچھ کے خیال میں تو وہ امریکہ کو سمجھانے ہی یہ گئے تھے کہ نہ تو وہ مشرف ہیں اور نہ ہی کیانی اور بظاہر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب لوٹے ہیں۔شاید اسی لیے ان کے ہر نئے بیان کی اہمیت بھی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

خاص طور پر ان کا یہ کہنا کہ سکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال میں قومی سلامتی کو یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمہ داری ہے، اس کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا نہایت مشکل۔رپورٹ میں کہاگیاکہ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں موجود انتہا پسند عناصر صرف ملک کے قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے چپے چپے میں یا تو براہ راست یا اپنے مذہبی اور سیاسی حواریوں کے ذریعے پھیلے ہوئے ہیں۔

قبائلی علاقوں سے تو انھیں فوجی کارروائی کے ذریعے ہی بھگایا جا سکتا ہے لیکن شہروں اور دیہاتوں میں انھیں حکومت اور پولیس کے بغیر نہیں روکا جا سکتا۔پاکستان کے کئی سینیئر سرکاری اہلکار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ داعش پاکستان میں صرف وال چاکنگ اور پیمفلٹوں میں ہی نہیں بلکہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر ابھر رہی ہے اور داعش کا فوکس ہمیشہ شہروں پر رہا ہے نہ کہ دور دراز کے قبائلی علاقوں پر۔

اس خطرے کے مقابلے کے لیے فوج نہیں ایک مضبوط سویلین سکیورٹی اور حکومتی عزم چاہیے۔رپورٹ کے مطابق کیا حکومت پاکستان اس کے لیے تیار ہے؟ اور اگر نہیں تو کیا موجودہ آرمی چیف کا ڈوبتے جہاز کو بچانے کا فارمولا وہی ہو گا جو ان کے پیش رو کا تھا؟اس کا جواب ہمیں تبھی ملے گا جب یہ واضح ہو گا کہ جنرل راحیل شریف ہی نہیں بلکہ تمام شریف وہی بات کہہ رہے ہیں جو فی الوقت صرف ایک امریکہ پلٹ جرنیل کہہ رہا ہے۔

Browse Latest Health News in Urdu

ہومیو پیتھک طریقہ علاج  سے ہزاروں مریض بغیر آپریشن کے شفا یاب ہو رہے ہیں ، صدرڈاکٹرخادم حسین کھیڑا

ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے ہزاروں مریض بغیر آپریشن کے شفا یاب ہو رہے ہیں ، صدرڈاکٹرخادم حسین کھیڑا

’’ پنز‘‘مفت ادویات کی فراہمی میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے نمبر پرآگیا

’’ پنز‘‘مفت ادویات کی فراہمی میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے نمبر پرآگیا

ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے پہلا گھنٹہ انتہائی اہم ہوتا ہے،بروقت علاج سے  زندگی بچائی جاسکتی ہیں، ایم ..

ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے پہلا گھنٹہ انتہائی اہم ہوتا ہے،بروقت علاج سے زندگی بچائی جاسکتی ہیں، ایم ..

میو ہسپتال میں گردوں کی پتھریوں کیلئے جدید طریقہ علاج پی سی این ایل اپنا لیا گیا

میو ہسپتال میں گردوں کی پتھریوں کیلئے جدید طریقہ علاج پی سی این ایل اپنا لیا گیا

دوگھنٹے سے زیادہ سمارٹ فون اور ڈیوائسزکا استعمال آپ کو توجہ کی کمی‘ جینیاتی عارضے اور مسلسل ذہنی خلفشار ..

دوگھنٹے سے زیادہ سمارٹ فون اور ڈیوائسزکا استعمال آپ کو توجہ کی کمی‘ جینیاتی عارضے اور مسلسل ذہنی خلفشار ..

سول ہسپتال میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کا عزم، ڈی سی جہلم نے جدید ترین آپریشن تھیٹر کا افتتاح کر دیا

سول ہسپتال میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کا عزم، ڈی سی جہلم نے جدید ترین آپریشن تھیٹر کا افتتاح کر دیا

پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 5 بچے دم توڑ گئے

پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 5 بچے دم توڑ گئے

پاکستان میں ایک کروڑستر لاکھ سے زائد لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں

پاکستان میں ایک کروڑستر لاکھ سے زائد لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں

سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین سروسزکی آؤٹ سورسنگ کے معاہدے پردستخط

سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین سروسزکی آؤٹ سورسنگ کے معاہدے پردستخط

2050 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک ارب 30 کروڑتک پہنچ سکتی ہے

2050 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک ارب 30 کروڑتک پہنچ سکتی ہے

پاکستان بھر میں آج کل لوگوں کے بیمار ہونے کا سبب بننے والے مرض کی نشاندہی کر دی گئی

پاکستان بھر میں آج کل لوگوں کے بیمار ہونے کا سبب بننے والے مرض کی نشاندہی کر دی گئی

وزن کو کنٹرول کرنے کیلئے زیتون کا تیل انتہائی موثر ہے،ڈاکٹر محمد احمد سندھو

وزن کو کنٹرول کرنے کیلئے زیتون کا تیل انتہائی موثر ہے،ڈاکٹر محمد احمد سندھو