امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہ دینا بدترین سفارتی ناکامی ہے-پارلیمان امریکا اور سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیروں اور دفترخارجہ کے حکام کو طلب کرکے ان سے جواب طلب کرئے-پاکستان کو دفترخارجہ کی نالائقیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ‘بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا مقدمہ اس اندازمیں لڑا کہ کانفرنس میں غیرموجودگی کے باوجود امریکی صدر نے بھارت کو مظلوم قراردیتے ہوئے اس کی وکلالت کی‘افغانستان کی قربانیوں کا توذکرکیا گیا مگر صدرٹرمپ کی زبان سے فرنٹ لائن ملک اور نان نیٹو اتحادی پاکستان کے لیے ایک لفظ بھی نہیں نکلا جوکہ پاکستان کی بدترین سفارتی ناکامی ہے-پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کی امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس پر تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 22 مئی 2017 13:14

امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہ دینا بدترین سفارتی ناکامی ہے-پارلیمان امریکا اور سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیروں اور دفترخارجہ کے حکام کو طلب کرکے ان سے جواب طلب کرئے-پاکستان کو دفترخارجہ کی نالائقیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ‘بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا مقدمہ اس اندازمیں لڑا کہ کانفرنس میں غیرموجودگی کے باوجود امریکی صدر نے بھارت کو مظلوم قراردیتے ہوئے اس کی وکلالت کی‘افغانستان کی قربانیوں کا توذکرکیا گیا مگر صدرٹرمپ کی زبان سے فرنٹ لائن ملک اور نان نیٹو اتحادی پاکستان کے لیے ایک لفظ بھی نہیں نکلا جوکہ پاکستان کی بدترین سفارتی ناکامی ہے-پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کی امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس پر تجزیاتی رپورٹ
ریاض(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-تجزیہ میاں محمد ندیم۔22مئی۔2017ء) سعودی عرب کے درالحکومت ریاض میں امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہ دینا بدترین سفارتی ناکامی ہے‘پارلیمان امریکا اور سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیروں اور دفترخارجہ کے حکام کو طلب کرکے ان سے جواب طلب کرئے-پاکستان کو دفترخارجہ کی نالائقیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بھارت نے سفارتی محاذ پر اپنا مقدمہ اس اندازمیں لڑا کہ کانفرنس میں غیرموجودگی کے باوجود امریکی صدر نے بھارت کو مظلوم قراردیتے ہوئے اس کی وکلالت کی‘افغانستان کی قربانیوں کا توذکرکیا گیا مگر صدرٹرمپ کی زبان سے فرنٹ لائن ملک اور نان نیٹو اتحادی پاکستان کے لیے ایک لفظ بھی نہیں نکلا ‘حتی کہ سعودی حکمران شاہ سلیمان نے بھی اپنے خطاب میں پاکستان کا ذکرتک نہیں کیا گیاجوکہ پاکستان کی بدترین سفارتی ناکامی ہے-وزیراعظم نوازشریف کو آنے والے دنوں میں اس پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اگر وہ بدمزدگی سے بچنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر وہ اس معاملے کی انکوائری کروائیں کہ ایسی شرمناک صورتحال پیدا کیوں ہوئی ؟جبکہ پاکستان کے سابق آرمی چیف اس اتحاد کی کمان کررہے ہیں-ریاض میں کانفرنس میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ خفت مٹانے کے لیے جھوٹی خبریں چلوا کر پاکستان کی اور جگ ہنسائی کروائی جارہی ہے جبکہ پوری دنیا کا میڈیا وہاں موجود تھا اور کانفرنس کی تمام کاروائی لائیو ٹیلی کاسٹ کی جارہی تھی‘سعودی حکومت کی جانب سے ایک خصوصی ویب سائٹ پر بھی کانفرنس کی لمحہ بہ لمحہ کوریج دنیا بھر دکھائی جارہی تھی ایسے میں سرکاری میڈیا کے ذریعے صدر ٹرمپ سے ”پرجوش مصافحہ“اور تبادلہ خیال کی خبریں چلوانا پوری دنیا کو خود پر ہنسنے کی دعوت دینا ہے-پاکستان کے سرکاری میڈیا کی جانب سے ملائیشیا‘ تاجکستان ‘ قطر، بحرین اور آذربائیجان کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتوں کی خبریں شرمندگی مٹانے کی ناکام کوشش ہیں ‘دفترخارجہ کی جانب سے چند ہفتے قبل کہاگیا تھا کہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ اور وزیراعظم نوازشریف کے درمیان ملاقات طے پاگئی ہے جبکہ کانفرنس سے صرف ایک دن قبل بیان جاری کیا گیا کہ کانفرنس کے طویل ایجنڈے کی وجہ سے ملاقات ہونے کے امکانات محدودہیں-سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے اور وزرارت خارجہ سے جواب طلب کیا جانا چاہیے کہ اگر وزیراعظم پاکستان کو اس طرح سے نظراندازکیا جانا تھا تو نوازشریف کانفرنس کے لیے خود جانے کی بجائے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کو نمائندگی کے لیے کہہ سکتے تھے-اس طرح کی عالمی کانفرنسوں اور سربراہان ممالک کے اجلاسوں کے شیڈول اور مکمل جزئیات کئی ماہ پہلے نہ صرف طے کرلی جاتی ہیں بلکہ تمام مہمان ممالک کے سفارت خانے اور وزرات خارجہ کو بھی آگاہ کیا جاتا ہے-اور پروٹوکول کے مطابق عین وقت پر کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ صرف سفارتی آداب کے خلاف تصور کی جاتی ہے بلکہ اسے مہمان کی توہین سمجھا جاتا ہے- مگر اس کانفرنس سے لگتا ہے کہ جیسے یہ کانفرنس نہیں بلکہ امریکا ‘سعودی عرب معاہدوں کی ایک تقریب تھی -وزیراعظم کے طیارے میں موجود صحافیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اڑھائی گھنٹے تک اپنی تقریرکی تیاری کرتے رہے جو انہوں نے کانفرنس میں کرنا تھی تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ طے شدہ پروگرام کے تحت وزیراعظم نوازشریف کو کانفرنس میں پاکستان کا موقف پیش کرنا تھا-اگر عین وقت پر پروگرام میں کسی قسم کی تبدیلی کی گئی تھی تو وزیراعظم نوازشریف احتجاج ریکارڈ کرواسکتے تھے مگر وزیراعظم اور دفترخارجہ کی جانب سے ایسی کوئی کوشش بھی دیکھنے میں نہیں آئی- سنیئرصحافی وتجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ صدرٹرمپ کی جانب سے بھارت کو مظلوم بناکر پیش کرنااور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کی قربانیوں کا تذکرہ جبکہ پاکستان کو مکمل طور پر نظراندازکرنا انتہائی تشویشناک ہے-موقرانگریزی جریدے ”دی نیشن“کے ایڈیٹرسلیم بخاری جوکہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ سعودی عرب کی کوریج کے لیے کانفرنس میں موجود ہیں کا کہنا ہے کہ امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب کے دارالحکومت میں وزیراعظم محمد نوازشریف کی قیادت میں پاکستانی وفد کے ساتھ خوفناک حد تک کچھ غلط ہوا۔

(جاری ہے)

اسلامی ایٹمی ریاست کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اختیار کیا گیا کیونکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار فرنٹ لائن کا ہے‘ لیکن اس کے وزیراعظم کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے خصوصی پرواز میں تقریباً اڑھائی گھنٹے اپنے کامریڈز کے ساتھ اپنی تقریر کی تیاری میں گزارے اور ان کا خیال تھا وہ سربراہی کانفرنس میں یہ تقریر کریں گے۔

اس حوالے سے ایک اور درد ناک پہلو یہ تھا کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور نہ ہی کوئی دوسرا ذمہ دار فرد وہاں موجود تھا جو یہ بتا سکتا کہ سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کو خطاب کا موقع کیوں نہیں دیا گیا جس کیلئے پچھلے ہفتہ سعودی وزیر خارجہ خود اسلام آباد آئے اور وزیراعظم کو دعوت دی تھی۔ کانفرنس میں منظور نظر راہنماﺅں کو تقریر کا موقع دیا گیا جنہوں نے دہشت گردی کا سامنا نہیں کیا جبکہ پاکستان بے مثال قربانیوں کے ساتھ دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے اب بھی پرعزم ہے۔

القاعدہ اور داعش کے بانی دہشت گردی کے خلاف آرام سے ہمارا کردار بھول گئے۔ صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف زہر ا±گلنے والے ٹرمپ نے بھارت کو دہشت گردی کا شکار ملک قرار دیا لیکن بھارت ایک ایسا ملک ہے جس نے معصوم کشمیریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھا ہے جو صرف آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے آرام سے اسرائیلی حکومت کی طرف سے دہشت گردی کو نظرانداز کردیا۔

نیتن یاہو نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو کہا تھا کہ وہ فلسطینی مردوں، خواتین اور بچوں کو ذبح کرتے رہیں گے۔سلیم بخاری لکھتے ہیں کہ ٹرمپ نے بھارت کا دفاع کرکے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اس موقع پر شاہ سلمان کا نرم رویہ تکلیف دہ ہے، ہم کب سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام رہے، حال ہی میں سعودی عرب کی درخواست پر راحیل شریف نے سعودی فوجی اتحاد کی کمانڈ سنبھالی۔

چند سفارتکاروں کا خیال ہے جب سے پاکستان نے یمن میں اپنی فوج بھیجنے سے انکار کیا، اس وقت سے سعودی حکمران ناراض ہو سکتے ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں کو چینلز اور اخبارات کی طرف سے فون آئے کہ ” کیا ہوا ہے“ کیا ہمارا دفتر خارجہ ہے؟ لیکن جواب دینے کیلئے کوئی نہیں تھا سب نے کہا کہ یہ مایوسی سے بھرا خوفناک دن ہے۔ کانفرنس سنٹر سے ہر کوئی بوجھل دل کے ساتھ ہوٹل کی طرف واپس آیا۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ، عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھارت کے علاوہ امارات، لبنان، آسٹریلیا، اردن، افریقی ممالک، روس، چین اور جنوبی امریکہ کے ملکوں کا حوالہ دیا کہ وہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ افغانستان کا خصوصیت سے 5 سے زائد مرتبہ ذکر کیا کہ وہ بھی دہشت گردی کا شکار ہے اور ”دوسروں“ سے بھی لڑ رہا ہے۔ (تھوڑی سی کوشش سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ”دوسرے“ کون ہیں جن سے افغانستان لڑ رہا ہے) تاہم دہشت گردی کا شکار ممالک کے حوالے سے پاکستان کا ذکر بالکل ہی گول کر دیا۔

پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ماضی کی امریکی قیادت کی طرف سے دہشت گردی کی جنگ کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بھی کہا جاتا رہا ہے اور پھر ہمارے ہی ملک کے سابق سپہ سالار 34 رکنی سعودی فوجی اتحاد (جسے مسلم نیٹو بھی کہا جاتا ہے) کے سربراہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان نے دی ہیں۔ ہمارے 6 ہزار سے زائد فوجی افسر اور اہلکار، 35 ہزار سے زائد عام شہری دہشت گردی کے باعث یا اس کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

اس کے علاوہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت اور روڈ سٹرکچر بری طرح متاثر ہوئے، اس کے علاوہ بے تحاشہ مالی وسائل ہمیں اس جنگ میں جھونکنے پڑے جو عام حالات میں ترقیاتی کاموں پر لگ سکتے تھے۔ غرض دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سب سے نمایاں ملک ہے بلکہ دہشت گردی سے نقصان اٹھانے والوں میں بھی سب سے آگے ہے۔

ان حالات میں ایک ایسی سربراہی کانفرنس میں جس میں ہمارے وزیراعظم بھی مدعو تھے دہشت گردی کا شکار ملکوں کے حوالے سے ٹرمپ کا ہمارا ذکر نہ کرنا انتہائی افسوسناک تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز بھی ہے اور بہت سے سوالات کرتا دکھائی دے رہا ہے جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سعودی فوجی اتحاد میں ہم اپنے ملکی مفاد کی کن شرائط کو سامنے رکھ کر شامل ہوئے ہیں، کیونکہ بظاہر نظر آ رہا ہے کہ ہماری کوئی اہمیت نہیں۔

بھارت کو دہشت گردی کا شکار قرار دیکر پاکستان کو سرے سے ہی نظرانداز کر دینا کیا معنی رکھتا ہے۔دفتر خارجہ ہر طرف سے پیغام دیتا دکھائی دیا کہ وزیراعظم نواز شریف اس سربراہی کانفرنس سے خطاب کریں گے اور یہ کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے موقف کوسراہا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کو بری طرح نظرانداز کرنے سے ثابت ہو گیا کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے۔

اس بدلتی ہوئی دنیا میں حالات پر صحیح انداز میں نظر نہیں رکھی جا رہی۔ اس بات کا ادراک پہلے کیوں نہ کیا گیا کہ کانفرنس میں ہمارے ہی وزیراعظم کی موجودگی میں ہمارا ہی ذکر گول ہو جائے گا، جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف ہر اعتبار سے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ ہمارا ذکر نہ ہونا ایک سبکی ہے کہ جس پر خصوصاً دفتر خارجہ کے بزرجمہروں اور اس کے علاوہ پوری حکومتی اور ریاستی مشینری کو جواب دہ ہونا چاہئے۔

ہمارے سفارتی کامیابی کے بلند و بانگ دعوے شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے اور یہ سوال پیدا ہو گیا کہ عالمی اور علاقائی صورتحال پر ہم گہری نظر رکھے بھی ہوئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ خوامخواہ ملک کے اندر ڈھول بجایا جا رہا ہے اس کی آواز دنیا بھی سن بھی رہی ہے یا صرف ہمیں ہی سنایا جا رہا ہے اور باقی دنیا مختلف خطوط پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ ہم ایک واضح دہشت گرد کلبھوشن پر عالمی عدالت میں اپنا کیس صحیح انداز میں لڑ سکیں گے یا نہیں۔

بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی کوئی تیاری کی اور نہ ہی ”پروٹوکول“کے علاوہ اس کا کردار کہیں نظرآیااس اہم کانفرنس کی تفصیلات میڈیا تک پہنچانے کیلئے پاکستانی سفارت کاروں نے کوئی بندوبست نہیں کیاگیا۔ پاکستانی میڈیا صرف سعودی ٹی وی سے خبریں وصول کرکے اپنے عوام کو پہنچا تا رہا جبکہ پاکستا ن کے سفارت کار پاکستانی میڈیا کو کوئی خبر یا وزیر اعظم پاکستان کی مصروفیات دینے سے قاصر تھے۔

پاکستانی میڈیا اور پاکستانیوں کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب معلوم ہوا کہ وزیراعظم نوازشریف کو تقریرکا موقع ہی نہیں دیا گیا جبکہ ان کے مقابلے میں مصر ، انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک کوتقریر کا موقع دیا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف کو انسداد دہشت گردی سنٹرکی افتتاحی تقریب سمیت کئی اہم موقعوں پر نظرنہیں آئے-
امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو اپنا موقف پیش ..

ریاض میں شائع ہونے والی مزید خبریں