”قہوہ بنانے کی بجائے پب جی کیوں کھیلتی رہی؟“

سعودی خاوند نے عید کے روز بیوی کی پٹائی کر دی، خاتون مہمانوں کے لیے قہوہ بنانا بھول کر آن لائن گیم کھیل رہی تھی

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 26 جولائی 2021 16:24

”قہوہ بنانے کی بجائے پب جی کیوں کھیلتی رہی؟“
ریاض (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔26جولائی2021ء ) دُنیا بھر میں پب جی کی مقبولیت کا ابھی تک ڈنکا بج رہا ہے۔ اس آن لائن گیم کی وجہ سے دُنیا بھر میں کئی افراد کی جانیں بھی جا چکی ہیں اور سینکڑوں ہزاروں جھگڑے بھی ہو چکے ہیں۔ سعودی میں ایک خاتون کو پب جی کھیلنے کا شوق مہنگا پڑ گیا جس کے نتیجے میں خاوند نے عید کے خوشیوں بھرے تہوار کے روز اس کی پٹائی کر دی۔

خاتون نے اپنے شوہر کے اس ناروا سلوک پر اس کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عید الاضحی کے پہلے روز سعودی خاوند نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر میں دعوت پر مہمان آ رہے ہیں، وہ ان کے لیے قہوہ بنا دے۔ تاہم مہمانوں کے آنے کے بعد بھی جب قہوہ تیار نہ ہوا تو خاوند مشتعل ہو گیا۔ اس نے بیوی سے پوچھا کہ قہوہ کیوں تیار نہیں ہوا ۔

(جاری ہے)

جب اہلیہ نے بتایا کہ وہ پب جی میں اتنا زیادہ مصروف ہو گئی تھی کہ اسے قہوہ بنانا یاد نہیں رہا۔ یہ بات سُن کر خاوند طیش میں آ گیا اور اپنی بیوی کی پٹائی کر دی۔ جس پر بیوی نے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں پوری کرتی ہے۔ اس کے باوجود شوہر اسے پب جی کھیلنے سے روکتا ہے۔ خاوند کی بلاوجہ مار پیٹ سے اسے جسمانی چوٹیں بھی آئی ہیں اور وہ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔

خاوند کی اس مذموم حرکت پر وہ مقدمہ درج کرا رہی ہیں جس میں وہ ان سے ہزاروں ریال درہم کی رقم بطور تلافی کا مطالبہ کریں گی۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں گزشتہ چند سالوں کے دوران طلاق کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔ آئے روز طلاق کے لیے ایسے ایسے انوکھے دعوے آتے ہیں کہ عدالت کے جج بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک خاتون کی جانب سے اس بنیاد پر خلع کے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے کئی سال پہلے تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے وہ اس سے طلاق لینا چاہتی ہے۔

جب خاتون کے شوہر کو مصالحتی کمیٹی کے سامنے بُلایا گیا تو اس نے کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو کبھی نہیں مارا، البتہ آٹھ سال پہلے ضرور اس کی مار پیٹ کی تھی۔ اس کے بعد ایسی حرکت کبھی نہیں کی۔ جس کے جواب میں سعودی خاتون کا کہنا تھا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کے خاوند نے اسے آٹھ سال پہلے تشدد کا نشانہ بنایا تھا، مگر وہ اس برسوں پرانے واقعے کو بھی بھول نہیں سکی ہے اور اپنے خاوند کی اس گھناؤنی حرکت کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے اسے خاوند سے طلاق دلوائی جائے۔ تاہم اس واقعے کے بعد ان کے تین بچے بھی ہوچکے ہیں۔ شوہر کی جانب سے بیوی کے ساتھ رہنے پر رضامندی ظاہر کی گئی تھی، مگریہ خاتون طلاق لینے پر بضد رہی۔

ریاض میں شائع ہونے والی مزید خبریں