نیوم ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 21 ستمبر 2023ء )
سعودی عرب کے ولی عہد اور
وزیراعظم شہزادہ
محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ
سعودی عرب اور
امریکہ کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری اہم اور دونوں کے لیے فائدہ مند ہے،
اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا معاہدہ قریب تر ہو رہا ہے،
سعودی عرب نے مسلسل دو برسوں میں جی 20 ممالک کی مجموعی جی ڈی پی میں تیز ترین نمو حاصل کی ہے، اگر
ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو ہم بھی کریں گے۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مملکت کو کسی بھی ملک کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر تشویش ہے، یہ ایک بری حرکت ہے کیوں کہ
دنیا ایک نئے ہیروشیما کو برداشت نہیں کرسکتی اور اگر آپ
ایٹمی ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو آپ کو باقی
دنیا کے ساتھ بھی لڑائی لڑنا پڑے گی، اس لیے جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر ایران
ایٹمی ہتھیار حاصل کرتا ہے تو پھر
سعودی عرب کو بھی اسے رکھنے کی ضرورت ہوگی اور مملکت سکیورٹی وجوہات اور طاقت کے توازن کے لیے ایسا کرے گی، تاہم اس وقت تہران کے ساتھ تعلقات اچھی طرح آگے بڑھ رہے ہیں اور امید ہے خطے کی سلامتی اور استحکام کے فائدے کے لیے ایسا کرتے رہیں گے۔
(جاری ہے)
شہزادہ
محمد بن سلمان نے کہا کہ
امریکہ کے ساتھ تعلقات پیچیدہ ہونے کے باوجود
امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہمارے درمیان بہت سے سکیورٹی اور فوجی تعلقات ہیں جو
سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر
امریکہ کی پوزیشن بھی مضبوط ہورہی ہے، ہم
امریکی ہتھیاروں کے پانچ بڑے خریداروں میں سے ایک ہیں،
امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک سے ہتھیار خریدنے کا ہمارا اقدام ان کے مفاد میں نہیں ہے، برکس میں شامل ممالک کا گروپ بھی
امریکہ کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ اس کے اندر
واشنگٹن کے اتحادیوں کی موجودگی اس کا ثبوت ہے، برکس گروپ جس میں برازیل،
روس، بھارت، چین اور جنوبی
افریقہ شامل ہیں، یہ کوئی سیاسی اتحاد نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں
امریکی و دیگر غیر ملکی کمپنیاں مشرق وسطیٰ میں محفوظ ماحول میں سرمایہ کاری کریں اور
اقتصادی راہداری جو مشرق وسطیٰ کو
یورپ سے جوڑے گی اس سے وقت اور پیسے کی بچت ہوگی اور فاصلے کم ہوں گے۔
عرب نیوز کے مطابق
اسرائیل سے متعلق سوال کے جواب میں شہزادہ
محمد بن سلمان نے کہا کہ
اسرائیل سے
مذاکرات معطل نہیں ہوئے، ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ
اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف قریب ہوتے جا رہے ہیں، تاہم ہمارے لیے مسئلہ
فلسطین بہت اہم ہے اور ہمیں اسے حل کرنے کی ضروت ہے، اس لیے فی الحال ہمیں دیکھنا ہے ہم کہاں جاتے ہیں، ہمیں امید ہے یہ معاملہ ایک ایسی جگہ پہنچے جس سے فلسطینیوں کی زندگی آسان ہو جائے اور
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں صرف ایک پلیئر کے طور پرآئے، اگر جو بائیڈن انتظامیہ نے
سعودی عرب اور
اسرائیل کے درمیان کوئی معاہدہ کرایا تو یہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ہوگا۔
تیل کے حوالے سے سوال کے جواب میں سعودی
وزیراعظم نے کہا کہ اوپیک کا
تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ مارکیٹ کے استحکام پر مبنی ہے اور اس کا مقصد
روس کو یوکرین میں اپنی جنگ لڑنے میں مدد کرنا نہیں تھا، ہم صرف رسد اور طلب پر نظر رکھتے ہیں، اگر رسد کی کمی ہے تو اوپیک پلس میں ہمارا کردار اس کمی کو پراکرنا ہے، اگر ضرورت سے زیادہ سپلائی ہوتی ہے تو اوپیک پلس میں کردار مارکیٹ کے استحکام کےلیے اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ
سعودی عرب اکیسویں صدی کی سب سے بڑی کامیابی کی کہانی ہے، ہمارا ملک اس وقت تمام شعبوں میں سب سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے، وژن 2030ء کے اصلاحاتی ایجنڈے کا ایک ستون مملکت کو عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا ہے، اس میں
کھیل، تفریح اور ثقافت بھی شامل ہیں، ہمیں کھیلوں کے شعبے کی ترقی پر کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ یہ
معاشی منافع میں کارگر ثابت ہوا ہے، ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جلد ہی
کھیل ہماری مجموعی جی ڈی پی میں 1.5 فیصد کا حصہ ڈالیں، مجموعی طور پر سیاحتی شعبے میں سرمایہ کاری سے
سعودی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 3 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد ہو جائے گا۔
جمال خاشقجی کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے ولی عہد نے کہا کہ
سعودی عرب نے خاشقجی کے
قتل میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلایا اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے اصلاحات کیں،
قتل میں ملوث ہر شخص
جیل میں وقت گزار رہا ہے اور اسے قانون کا سامنا کرنا ہوگا، ہم تمام قانونی اقدامات اٹھاتے ہیں، ہم سکیورٹی کے نظام میں اصلاحات کررہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس قسم کی غلطیاں نہ ہوں اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں میں اس طرح کا کچھ نہیں ہوا۔