تبوک میں سمندر کی تہہ سے پنجرے میں بند انسانی ڈھانچے برآمد

مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، لوگ اسے کسی جادوگر کی کارروائی قرار دے رہے ہیں

Muhammad Irfan محمد عرفان منگل 4 فروری 2020 12:16

تبوک میں سمندر کی تہہ سے پنجرے میں بند انسانی ڈھانچے برآمد
تبوک(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔4 فروری 2020ء) سعودی مملکت کے تبوک ریجن میں سمندر کی تہہ سے پُراسرار انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے ہیں، جنہوں نے آس پاس کے لوگوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔لوگ اسے کسی جادوگر کی کارروائی قرار ے رہے ہیں۔ اُردو نیوز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ ڈھانچے سعودی غوطہ خوروں کے ایک گروہ کو مِلے ہیں جو سمندر میں اپنی معمول کی غوطہ خوری میں مصروف تھا۔

اس حوالے سے غوطہ خور وں کے ہیڈ کیپٹن محمد الصبیلی نے بتایا کہ غوطہ خوروں کو سمندر کی تہہ میں بارہ فٹ نیچے ایک پنجرہ دکھائی دیا جس میں انسانی ڈھانچے تھے۔ یہ پنجرہ بڑی جالیوں سے تیار کیا گیا تھا، جس کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا بھی لگایا گیا تھا۔ جس سے کسی قید خانے کا گمان ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

لگتا یہی تھا کہ اسے جان بُوجھ کر سمندر کی گہرائی میں پھینکا گیا ہے تاکہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑ سکے۔

غوطہ خوروں نے اس پنجرے کی اطلاع کوسٹ گارڈز کو دے دی۔ جب یہ پنجرہ ساحلِ سمندر پر لایا گیا تو اس میں موجود انسانی ڈھانچے پر ایک اوور کوٹ پہنایا گیا تھا جب اس کے سر پر بحری قزاقوں والی ٹوپی رکھی ہوئی تھی۔ اس پنجرے کو دیکھتے ہی گرد و نواح کے مکینوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ انسانی ڈھانچوں سے لدے اس پنجرے کو لیبارٹری میں لے جایا گیا۔

تاہم وہاں جا کر انکشاف ہوا کہ یہ ڈھانچہ کسی حقیقی انسان کا نہیں بلکہ پلاسٹک کا بنا ہوا تھا۔ اس نوعیت کے مصنوعی ڈھانچے عام طور پر میڈیکل کالجز میں تعلیم دینے کی خاطر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں کیپٹن الصمیلی نے خیال ظاہر کیا کہ پنجرہ اور اس میں بند ڈھانچہ اس بات کی جانب سے اشارہ کرتا ہے کہ اسے کسی جادوکے مقصدکے تحت سمندر کی تہہ میں پھنکا گیا ہے۔ عام طور پر اس قسم کی اشیاء پر جادو کرکے انہیں سمندر برد کیاجاتا ہے۔ پنجرے کے دروازے پر تالہ لگانا اس بات کا اظہار ہے کہ جس شخص کے لیے ڈھانچے کو سمندر میں ڈبویا گیا ہے۔ اس کا مقصد اسے قیدکروانا ہو سکتا ہے‘۔

متعلقہ عنوان :

تبوك میں شائع ہونے والی مزید خبریں