دُبئی: پولیس والے کے ایثار نے شیر خوار بچے کی ماں کو جیل جانے سے بچا لیا

پولیس اہلکار نے مشکل میں گھِری خاتون کے ذمہ دس ہزار درہم کی رقم اپنی جیب سے ادا کر دی

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 15 اگست 2018 17:12

دُبئی: پولیس والے کے ایثار نے شیر خوار بچے کی ماں کو جیل جانے سے بچا لیا
دُبئی: پولیس والے کے ایثار نے شیر خوار بچے کی ماں کو جیل جانے سے بچا لیا
پولیس اہلکار نے مشکل میں گھِری خاتون کے ذمہ دس ہزار درہم کی رقم اپنی طرف سے ادا کی
دُبئی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 اگست 2018ء) متحدہ عرب امارت میں ایک اماراتی پولیس اہلکار نے انسانیت پرستی اور ایثار کی انوکھی مثال قائم کر دی۔ اس اہلکار نے سات ماہ کی بچی کی والدہ کے ذمے قرض کی رقم کی ادائیگی اپنی جیب سے کر اُسے جیل جانے کی ذِلّت سے بچا لیا۔

تفصیلات کے مطابق عرب فیملی کو پولیس سٹیشن کی جانب سے ایک مالی معاملے میں تھانے طلب کیا گیا تھا۔ خاتون کے خاوند نے بتایا کہ اُس کی کمپنی بیوی کے نام پر رجسٹرڈ تھی جو کچھ عرصہ سے مالی مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ خاوند کے مطابق ’’میرا خیال تھا کہ انہوں نے ہمیں سوال جواب کے لیے بُلایا ہے‘ سو میں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ وہاں چلا گیا۔

(جاری ہے)

مگر وہاں جا کر اُس وقت ہمارے ہوش اُڑ گئے جب ہمیں ایک روزہ عدالت میں لے جایا گیا جہاں پرمختصر سماعت کے بعد حُکم سُنایا گیا کہ میں فوری طور پر دس ہزار اماراتی درہم کا جرمانہ ادا کر دوں‘ ورنہ میری بیوی کوسو دِن کے لیے جیل جانا پڑے گا۔ یہ سُن کر ہم حواس باختہ ہو گئے اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کِیا جائے کیونکہ ہمارے مالی حالات بھی بہت خراب تھے اور اتنی بڑی رقم کا فوری طور پر ادا کرنا ممکن نہ تھا۔

میں نے اپنے دوستوں کو بھی مد دکے لیے فون کیا مگر سب نے رقم نہ ہونے کا سُنا دِیا۔ سب اُمیدیں ساتھ چھوڑ گئی تھیں۔ بس ایک ہی خدشہ ذہن پر مسلّط ہو گیا تھا کہ میری بیوی جیل چلی جائے گی ‘ جس کے شیر خوار بچے کی عمر محض سات ماہ ہے۔ میں نے پولیس والوں کو یہاں تک کہاکہ وہ اُس کی بجائے مجھے جیل میں ڈال دیں‘ مگر قانونی طور پر یہ ممکن نہ تھا۔

اسی دوران وہاں ایک پولیس اہلکار لیفٹیننٹ عبدالہادی الحمادی آن پہنچا جس نے مجھے مدد کے لیے آہ و پُکار کرتے سُنا تو کہا کہ میں اُس کا انتظار کروں‘ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکال کر آتا ہے۔ پانچ منٹ بعد وہ واپس لوٹا تو اُس کے ہاتھ میں ایک رسید تھی جس پر دس ہزار کی رقم درج تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس نے جرمانے کی رقم ادا کر دی ہے۔

پھر اس نے مجھے ایک دستاویز تھمائی کہ میں باقی کا پروسیجر مکمل کر کے اپنی بیوی کو واپس گھر لے جاؤں۔ اُس نے جو کِیا‘ اُس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ ہمارے لیے اندھیروں میں اُمید کی شمع ثابت ہوا ہے۔ میں اُس کا بہت شکر یہ ادا کرتا ہوں۔ ‘‘ دراصل خُدا ترس اہلکار یہ رسید لے کر الرشیدیہ پولیس سٹیشن کے ڈائریکٹر بریگیڈیر سعید حماد بن سلیمان کے پاس گیا اور اُسے ساری کہانی سُنائی جس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں مِل کر جُرمانے کی آدھی آدھی رقم ادا کر دیں گے۔

خُدا ترس پولیس اہلکار الحمادی نے بتایا ’’میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اُس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ہمارے حکمران عوام اور پُوری دُنیا کے لیے کرتے رہے ہیں‘ اُن کی سخاوت اور خُدا ترسی ہی میرے اس نیک کام کے لیے تحریک کا باعث بنی۔یہ تو ویسے بھی شیخ زاید کا سال ہے۔ ‘‘

میں شائع ہونے والی مزید خبریں