Open Menu

Karam Ke Moti - Article No. 3169

Karam Ke Moti

کرم کے موتی! - تحریر نمبر 3169

جب تم قرآن شریف پڑھتے ہوتو یہی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے تم تمام باتیں سمجھ نہ پاؤ یا یاد نہ رکھ سکو لیکن جب تم اسے پڑھتے ہوتو تمہارے اندر اور باہر سے صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے اور تبدیلی آتی ہے

Syed Sardar Ahmed Pirzada سید سردار احمد پیرزادہ پیر 3 جون 2019

آئیے! ایک کہانی پڑھتے ہیں۔ ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امریکہ میں کنٹکی ریاست کی مشرقی پہاڑیوں میں ایک مسلمان امریکی بوڑھا اپنے خاندان کے ساتھ اپنے فارم ہاؤس میں رہتا تھا۔ اُس فارم ہاؤس میں اُس بوڑھے کا ایک پوتا بھی تھا۔ داداجی صبح سویرے اٹھتے اور باورچی خانے کی میز پر بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا کرتے تھے۔ اُن کا پوتا اُن کی ہر حرکت کا نوٹس لیتا رہتا اور ہر چیز میں ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا۔
ایک دن پوتے نے پوچھا داداجی! میں بالکل آپ کی طرح قرآن شریف پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں اسے سمجھ نہیں پاتا اور جو سمجھتا ہوں وہ بھی پاک کتاب بند کرتے ہی بھول جاتا ہوں۔ تو پھر میں قرآن شریف کیوں پڑھوں؟ قرآن پڑھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ داداجی چولہے میں کوئلہ ڈالتے ہوئے خاموشی سے پلٹے اور بچے کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے بولے یہ کوئلے کی ٹوکری دریا پر لے جاؤ اور مجھے اس میں پانی بھرکر لادو۔

(جاری ہے)

لڑکے کو جیسا کہا گیا تھا اُس نے ویسا ہی کیا لیکن اُس کے واپس پہنچنے سے پہلے ہی سارا پانی ٹوکری سے بہہ گیا تھا۔ داداجی ہنسے اور بولے تمہیں آئندہ ذرا پھرتی سے کام کرنا ہوگا اور لڑکے کو دوبارہ پانی لانے کے لیے دریا پر واپس بھیج دیا۔ اِس مرتبہ لڑکا زیادہ تیز بھاگا مگر اُس کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی ٹوکری دوبارہ خالی ہوچکی تھی۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ پوتے نے داداجی کو کہا کہ ٹوکری میں پانی بھرکر لانا ناممکن ہے۔
لہٰذا میں پانی بالٹی میں لے آتا ہوں۔ داداجی نے اسے روک دیا او ربولے مجھے پانی کی ایک بالٹی نہیں بلکہ پانی کی ایک ٹوکری ہی چاہیے۔ تم شاید پوری طرح سے کوشش نہیں کر رہے اور وہ خود اسے یہ کام کرتا دیکھنے کے لیے دروازے سے باہر چلے گئے۔ لڑکا یہ جانتا تھا کہ یہ کام ناممکن ہے پھر بھی اس موقع پر وہ اپنے داداجی کو بتانا چاہتا تھا کہ چاہے وہ کتنا بھی تیز کیوں نہ بھاگے، سارا پانی اس کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی نکل جائے گا۔
لڑکے نے ٹوکری کو اس مرتبہ اچھی طرح دریا میں ڈالا اور بہت تیز دوڑا لیکن جب وہ اپنے داداجی کے پاس پہنچا تو ٹوکری پھر خالی ہوچکی تھی۔ معصوم چہرہ مسلسل بھاگنے کے باعث سرخ ہوچکا تھا اور پہلے سے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ چھوٹا سا روشن ماتھا پسینے کی بوندوں سے اور بھی دمک اٹھا تھا۔ اُس نے ہانپتے ہوئے فاتحانہ لہجے میں کہا دیکھا داداجی یہ عمل بے کار ہے۔
داداجی مسکرائے اور بولے اچھا تو تمہارا خیال ہے یہ عمل بیکار ہے؟ بوڑھے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے پوتے کی توجہ ٹوکری کی طرف دلائی، ذرا اس طرف دیکھو۔ لڑکے نے ٹوکری کی طرف دیکھا اور پہلی مرتبہ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ ٹوکری پہلے سے مختلف دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اب کوئلے کی ایک سیاہ اور گندی ٹوکری سے تبدیل یعنی ٹرانسفارم ہوکر اندر اور باہر سے صاف ستھری ہوچکی تھی۔
داداجی نے پوتے کو گود میں بٹھایا، پیار کیا اور سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بیٹا! جب تم قرآن شریف پڑھتے ہوتو یہی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے تم تمام باتیں سمجھ نہ پاؤ یا یاد نہ رکھ سکو لیکن جب تم اسے پڑھتے ہوتو تمہارے اندر اور باہر سے صفائی کا عمل شروع ہوتا ہے اور تبدیلی آتی ہے۔ پیارے بیٹے ہماری زندگیوں میں یہ کام اللہ کا ہے۔ یہ اُس کے کرم کے موتی ہیں“۔
کہانی ختم ہوتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر انسان بہت باشعور ہوچکا ہے۔ اسے اپنے فائدے اور نقصان کی سب باتیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ اسی لیے کوئی کسی کو بیوقوف نہیں بناسکتا اور ہم اپنی عقل ودانش سے بڑے بڑے مسئلے حل کرلیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گردی دنیا میں زہر کی طرح پھیل رہی ہے اور اس دہشت گردی سے کس کس کا مفاد وابستہ ہے۔ لہٰذا اس کے سدباب کے لیے سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ لگ جانے سے کتنی تباہی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دونوں ملکوں کے سنگین سے سنگین اختلافات کو بھی بات چیت اور سفارتی ذرائع سے حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مشکل ترین کام ہم اپنی عقل ودانش کی سخت محنت سے کرلیتے ہیں لیکن کبھی کبھی انتہائی سنجیدہ اور اہم مسائل کے بہت آسان حل ہوتے ہیں جنہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
ہماری ایک اور نفسیاتی عادت ہے کہ کوئی شے، سفارت کار، پلاننگ یا مشورہ امریکہ سے آیا ہوتو وہ بہت ہی زیادہ قابل قبول ہوتا ہے۔ اوپر کی کہانی میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے اندر اور باہر کی کالک کو کتنی آسانی سے دھو سکتا ہے۔ یہ واقعہ امریکہ کا ہی تھا اور مشکل مسئلے کا آسان حل ہے۔ کیا اکیسویں صدی کے ذہین انسان کو سیدھی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی؟ چھوٹے انسان بڑی انا میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ اُس ذاتِ پاک کی مہربانیوں کا شکر ادا نہیں کررہے۔ اکثر ہم بہت سے عہد کرتے ہیں۔ آئیے! آج 27 رمضان المبارک کی بابرکت لیلتہ القدر کو ایک پکا عہد کریں کہ کرم کے یہ موتی اکٹھے کرنے کی ہمیشہ کوشش کریں گے۔ اپنی دعاؤں میں پیارے ملک پاکستان اور سب پیارے پاکستانیوں کو ضرور یاد رکھیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu