Open Menu

Kyun Nah Sara Saal Hi Ramadan Manaye ! - Article No. 3176

Kyun Nah Sara Saal Hi Ramadan Manaye !

کیوں نہ سارا سال ہی رمضان منائیں! - تحریر نمبر 3176

رمضان المبارک روحانی ریفر یشر کورس کا مہینہ ہوتا ہے اور یہ ہر سال حقو ق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی یاددہانی کرنے آتا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ حقو ق اللہ اور حقو ق العباد کی ایسی جاگ لگانے آتا ہے جس کا اثر سارا سال رہنا چاہیے

لقمان انجم جمعرات 13 جون 2019

رمضان المبارک میں افطاری سے تھوڑا وقت پہلے جب دروازے پر دستک ہوتی تو گھر کے بچے دوڑتے ہوئے دروزے کی طرف لپکتے کہ“افطاری آئی ہے ”اور جب وہ دروازہ کھولتے تو ان کی بات سچ ثابت ہوتی اور محلہ یا گلی کے کوئی صاحب کھانے کی چیز پلیٹ میں اٹھائے کھڑے ہوتے۔ رمضان المبارک میں دیگر اچھی عادتوں کے ساتھ ساتھ ایک یہ نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا کہ ہمسایوں کی طرف کھانے پینے کی اشیاء بڑے اہتمام کے ساتھ بھجوائی جاتیں اور سحر و افطار کا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے مختلف قسم کے ماکولات خاص اہتمام کے ساتھ ہمسایوں کی طرف بھجوائے جاتے۔
ایسا کرنے سے معاشرہ میں محبت و مودت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ رمضان گزرتے ہی ہمسایوں کی طرف کھانے کی اشیاء بھجوانے کا جذبہ آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگتا ہے،حالانکہ اس کی طرف قرآن و حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں جہاں ہمسائے کے حقو ق بیان ہو ئے وہاں ہمسایہ کا ایک حق یہ بھی آیا ہے کہ اپنی ہانڈی کی (خوشبو) سے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچاؤ سو اس میں سے کچھ اسے بھی دے دو نیز ذکر ہے کہ اگر تم نئے پھل خریدو تو ہمسایہ کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ اس سے پڑوسی کے بچوں کو پھل نہ ملنے کی صورت میں تکلیف ہوگی۔

(جاری ہے)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!پورے طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے بہت کم لوگ ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ مہربانی کرتا ہے۔(شعب االایمان باب اکرام الجار) حدیث مبارکہ میں ہمسائے کی طرف کھانے کی اشیاء بھجوانے کی اس قدر تاکید بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ فلاں عورت اپنی نمازوں میں،اپنے روزوں میں،اپنے صدقہ خیرات میں بہت مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔
آپ نے فرمایا وہ آگ میں ہے،اس شخص نے عرض کی کہ فلاں عورت جو ہے وہ بہت زیادہ نماز،روزہ اور صدقہ وخیرات کی پابند تو نہیں لیکن پڑوسیوں کو (کھانے کا کچھ نہ کچھ) پنیر وغیرہ کے ٹکڑے بھیجتی رہتی ہے اور اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی آپ نے فرمایا وہ جنت میں ہو گی (مسند احمد) مندرجہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک اور اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک جنت نظیر معاشرہ کا بنیادی پہلو ہے۔اس سے امن و آشتی والا معاشرہ پیدا ہوتا ہے اس لئے رمضان کی اس اچھی عادت کا اظہار سارا سال ہی ہونا چاہئے اور اس سے کوتاہی برتنے کی وجہ سے ایک ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمسائے جو کہ گھر کی چار دیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہوتے ہیں۔اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں،ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنیں تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تو وہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی۔
اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیلے گی اور ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک بلا تمیز رنگ و نسل اور بلاتمیز قوم و مذہب ہونا چاہئے اور جب ایسا ہوتا ہے تو ایک جنت نظیر معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ رمضان المبارک روحانی ریفر یشر کورس کا مہینہ ہوتا ہے اور یہ ہر سال حقو ق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی یاددہانی کرنے آتا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ حقو ق اللہ اور حقو ق العباد کی ایسی جاگ لگانے آتا ہے جس کا اثر سارا سال رہنا چاہیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنت نظیر معاشرہ کے اس بنیادی پہلو کو سمجھنے اور سارا سال رمضان کی اس نیکی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu