Open Menu

Farmaan Nabwi - Article No. 2900

Farmaan Nabwi

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم - تحریر نمبر 2900

لوگو! خبر دار ،تمہارے لیے لازم ہے کہ تم اپنا آپ اللہ کی حدود سے بچاؤ۔پھر جو کوئی بدکاری میں ملوث ہوجائے تو

ہفتہ 12 جنوری 2019

محمد عبداللہ مدنی
لوگو! خبر دار ،تمہارے لیے لازم ہے کہ تم اپنا آپ اللہ کی حدود سے بچاؤ۔پھر جو کوئی بدکاری میں ملوث ہوجائے تو (اُسے چاہیے کہ)اللہ کے ستر میں مستوررہے ۔کیونکہ جس نے ہمارے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔اس پر اللہ کی حدود جاری کی جائے گی۔
سب سے بڑے گناہ (کبیرہ)تین ہیں ۔اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا کسی جان کو نا حق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹی شہادت دینا۔

(راوی:انس بن مالک بخاری شریف جلد 2)
ایک مسلمان کا قتل‘ساری دنیا کی تباہی پر بھاری ہے ۔(راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔تر مذی شریف )
قیامت کے رو ز سب سے پہلے خون (ناحق ) کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔(روای :عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

(جاری ہے)

ترمذی شریف۔صحیح بخاری جلد 6۔کتاب الدیات ص49۔سنن ابن ماجہ:جلد 2،ابواب الدیات ص123)
قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ افراد جناب سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے ،آپ نے انہیں صفہ میں ٹھہرایا۔

مدینہ کی آب وہوا انہیں راس نہ آئی ،بیماری نے انہیں اس قدر لاغر کردیا جیسے موت کے سائے ان پر منڈ لارہے ہوں ،آپ نے (اُن کی یہ حالت دیکھ کر )زکوٰة کے چند اونٹ اُن کے حوالے کئے اور حکم دیا کہوہ انہیں شہر سے باہرلے جائیں اور وہیں قیام کریں ،ان (اونٹنیوں )کا دودھ بطور غذا اور دوا استعمال کریں ۔وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق )زکوٰة (بیت المال)کے اونٹوں میں چلے گئے اور سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہوں نے دودھ کو بطور خوراک اور دوا استعمال کرنا شروع کیا یہاں تک کہ بالکل تندرست وتوانا ہو گئے۔
(لیکن کفر ان نعمت کرتے ہوئے)مرتد ہو گئے۔چراہے کو (بڑی بیدردی سے)قتل کر ڈالا اور بیت المال کے اونٹوں کو لے کر فرار ہو گئے۔
یہ خبر جناب رسالت ماب کو منہ اندھیرے ملی تو آپ نے چند سوار اُن کو گرفتار کرنے کے لئے روانہ فرمائے۔انہوں نے دن چڑھے ہی اُن کو جالیا اور گرفتار کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔
جناب سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق مندرجہ ذیل فیصلہ صادر فرمایا:
اُن کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے قطع کئے جائیں ۔

اُن کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی جائیں ۔
اُس کے بعد ان کوگرم پتھر یلی زمین پر پٹک دیا جائے۔
چنانچہ ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دےئے گئے،ان کی آنکھیں پھوڑدی گئیں اور انہیں حرہ کی پتھریلی اور تپتی ہوئی زمین پر پھینک دیا گیا ۔شدت پیاس سے وہ تڑپنے لگے ،پانی مانگا،لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا اور وہ اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ٹھنڈے ہو گئے ۔

ابو قلابہ کا قول ہے کہ انہیں اس قدر شدید سزائیں اس لئے دی گئیں کیوں کہ انہوں نے شدید جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
چوری کی ․․․․بیت المال کے اونٹوں کی۔
چرواہے کو بڑی بیدردی سے قتل کیا۔
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پیکار پر آمادہ ہوئے۔
یعنی چوری ‘قتل اور بغات تینوں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔(راوی :انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔صحیح بخاری جلد 6،کتاب المحار بین ص11۔14،صحیح مسلم جلد 4،ص299،302)

Browse More Islamic Articles In Urdu