Open Menu

9 Or 10 Muharram K Rozze Ki Fazilat - Article No. 2379

9 Or 10 Muharram K Rozze Ki Fazilat

نویں اور دسویں محرم الحرام کے روزے کی فضیلت - تحریر نمبر 2379

عاشورا، عشر سے بناہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یوم عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں۔ چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دن ہے۔ اس لئے اس کو محرم الحرام کی دسویں کا دن کہتے ہیں۔ یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔

منگل 18 ستمبر 2018

علامہ منیر احمد یوسفی:
عاشورا، عشر سے بناہے جس کے معنی دس کے ہیں۔ یوم عاشور کے لفظی معنی دسویں کے دن کے ہیں۔ چونکہ یہ محرم الحرام کے مہینہ کا دن ہے۔ اس لئے اس کو محرم الحرام کی دسویں کا دن کہتے ہیں۔ یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اس دن روزہ رکھتے۔

رسول کریم کا دستور تھا کہ آپ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے ان کاموں سے اتفاق فرماتے تھے جو ملت ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اِسی بنا پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اوراسی اصول کی بنا پر عاشورا کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔

(جاری ہے)

پھر آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے یہود کو ”یوم عاشورا“ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا ”تو ان سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کی یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کو غرق فرما دیا تھا۔

بعد ازیں جب یہ دن آتا تو (حضرت) موسیٰ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے (اْن کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم (حضرت) موسیٰ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم نے یوم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔“ (بخاری، مسلم، مشکوٰة، مسند احمد، صتح الباری، عمدة القاری، درمنثور، ابو داوٴد، ابن کثیر)
یہ بات پیش نظر رہے کہ نبی کریم کا یہ روزہ رکھنا حضرت موسیٰ کی موافقت کے لئے تھا پیروی کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے فرماتے ہیں: ”جب رسول کریم ﷺنے عاشورا کے دن کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں تو سرکارِ کائنات نے فرمایا اگر ہم آئندہ سال اس دنیا میں رہے تو نویں محرم الحرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔
(ابو داوٴد، مسند احمد، تفسیر قرطبی، مشکوٰة)۔
اِس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی کہ وہ صرف عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں اور ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھ کر دور کر لیا کریں گے اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں کریں گے بلکہ اِس میں اضافہ کرکے فرق کر دیا کریں گے۔
حضرت حکم بن الاعرج سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ”کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ زمزم شریف کے قریب اپنی چادر لپیٹے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
میں نے عرض کیا عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ ”جب تم محرم کا چاند دیکھو تو کھاو اور نویں تاریخ کا روزہ رکھو“(ترمذی، مسلم)
ایک اور روایت میں حضرت رزین نے حضرت عطا سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ”نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔
“ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسند احمد)
امّ المومنین حضرت سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: ”چار اعمال ایسے ہیں جن کو رسول اللہ نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یوم عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ (کے نو روزے) اور ہر ماہ کے تین روزے اور فجر سے پہلے دو ر کعتیں (یعنی سنت فجر)“۔ (نسائی، مسلم احمد، مشکوٰة)
نبی کریم کی ایک اور زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: ”رسول اللہﷺ ذی الحجہ کے نو روزے رکھتے تھے (پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک) اور عاشورا کے روز (یعنی دسویں محرم کو) روزہ رکھتے تھے اور ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کو اور دو ، دو جمعراتوں کو“ (نسائی، مسند احمد)
حضرت مزیدہ بن جابر سے روایت ہے، فرماتے ہیں، میری والدہ نے فرمایا: میں کوفہ کی مسجد میں تھی اور امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی تھے۔
انہوں نے فرمایامیں نے سنا وہ فرما رہے تھے: ”کہ رسول کریم عاشورا کے روزہ کے بارے میں فرما رہے تھے کہ روزہ رکھو۔“ (مسند احمد)
ایسے ہی حضرت عبداللہ بن زبیر کا واقعہ ہے وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے یوم عاشورا کے بارے میں فرما رہے تھے ”یہ عاشورا کا دن ہے روزہ رکھو، رسول اللہﷺ اس دن کے روزہ کا حکم فرماتے تھے۔“ (المعجم الکبیر للطبرانی، مسند احمد)
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں رسول کریم نے ارشاد فرمایا کہ تم ماہِ رمضان المبارک کے بعد روزہ رکھنا چاہتے ہو تو محرم الحرام (کے یوم عاشورا ) کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اللہ ربّ العزت کا مہینہ ہے جس میں اللہ کریم نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری کی اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمائے گا اور نبی کریم نے لوگوں کو رغبت دلائی کہ عاشورا کے دن توبة النصوح کی تجدید کریں اور قبول توبہ کے خواستگار ہوں۔
پس جس نے اس دن اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہی تو اللہ اس کی توبہ ویسے ہی قبول فرمائے گا جیسے ان سے پہلوں کی توبہ قبول کی ہے اور اس دن دوسروں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ حضرت امام ترمذی نے اس کی تخریج کی ہے۔ (ترمذی)

Browse More Islamic Articles In Urdu