Open Menu

Ameer Ul Momneen Syedna Umr Farooq R.A - Article No. 1208

Ameer Ul Momneen Syedna  Umr Farooq R.A

امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 1208

مرادرسولﷺ جانشین رسول ،امام العاولین ، خلیفہ راشد آپ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہیں جنہیں جنت کی بشارت دی گئی

جمعہ 22 ستمبر 2017

امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حافظ زاہد عارف:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کے بعد دوسرے خلیفہ راشد بنائے گئے۔ آپ کا نام مبارک عمر، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ لقب اور کنیت دونوں نبی کریم ﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپﷺ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ نبی کریم ﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ مکہ میں پیدا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والی انسانیت جس مہرہدایت کی منتظرتھی، جب وہ بطحا کی چوٹیوں سے احمد ومحمدﷺ بن کر جلو ہ فرما ہوئے اور آپ نے دعوت توحید کا آغاز فرمایا تو قریش مکہ نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔

(جاری ہے)

اس وقت حضرت عمر نے بھی آپﷺ کی سخت مخالفت کی۔ حضور ﷺ کی قبیلہ قریش کے دو طویل القامت نوجوانوں پر نظر پڑی تو بارگاہ الٰہی میں عرض کی ” ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کے دل سے نکلی ہوئی دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو مرادِ رسول ﷺ بھی کہا جاتاہے۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کے بعد پہلی بار مسلمانوں کو کعبہ میں نماز پڑھنے کو سعادت ملی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی سربلندی کیلئے شب وروز محنت کی اور عظیم کارنامے انجام دیئے۔ آپ نے سادگی اور عدل ومساوات کا عملی مظاہرہ کیا۔ آپ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ مشہور ہے آپ چالیس مردوں میں سے تھے ۔ غزوہٴ بدر اور ہر معرکے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ موجود رہے ۔
غزوہٴ بدر کے قیدیوں، پردہ،شراب کو حرام قرار دینے اور دیگر بہت سے معاملات میں قرآن کریم کی آیات آپ کی تائید میں نازل ہوئیں۔ جس دن خلیفہ راشد اول حضرت ابو بکر صدیق کا انتقال ہوا اسی دن آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیعت کی گئی۔ آپ نے خلافت کی اہم ذمہ داری سنبھالتے ہی رفاہی کاموں کی طرف توجہ دی اورعوامی خدمت کی ایسی مثال قائم کی کہ دنیا آج تک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
دنیا کی تاریخ میں کوئی حکمران ایسا نہیں دکھا یا جا سکتا جس کی قمیض اور تہہ بند میں میں دس دس پندرہ پندرہ پیوند لگے ہوں ، جوتے بوسیدہ ہوچکے ہوں اور وہ بے تاب وبے قرار مشکیزہ اٹھائے غریبوں اور بے کسوں کے گھر کا پانی بھر رہا ہو۔ کبھی بازاروں میں گھوم پھر کر تاجروں کی نگرانی کر رہا ہو، کبھی بیت المال کے اونٹوں کے جسم پر مالش کررہا ہو۔
جب تھکن سے چور ہوجاتے تو کسی بھی درخت کے سائے میں سر کے نیچے دو پتھر رکھ کر لیٹ جاتے اور کچھ دیر کو آرام کرلیتے۔ اس بے سرد سامانی اور فقر کے عالم میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ہمیشہ تاریخ انسانی میں نمایاں طور پر پہچانے جائے گے۔ بہت سے ایسے محکمے جو جدید دور کا خاصا سمجھتے جاتے ہیں اور آج کل کی جمہوری حکومتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے بانی اور موسس اول بھی دراصل حضرت عمر بن خطاب ہی ہیں۔
عمر ابن الخطاف ، رسول اکرم ﷺ کی نظر میں رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا ”اگر میرے بعد کوئی اور نبی معبوث ہونا ہوتو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ ایک اور جامع پر آپ ﷺ نے فرمایا”جس راستے پر عمر ہووہاں سے شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہتے۔“ مزید ایک موقع پر فرمایا ”اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے“۔ آپ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔
ایک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیراخطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا اور اس سے بہت کم تھا۔ تو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بتا یا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کو پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کا لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہوچکا تھا۔
اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آپ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ امیر المومنین کو کیا حق ہے کہ وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جہاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے ۔
باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے: 1 گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔2 عمدہ کھانا نہ کھانا۔3 باریک کپڑا نہ پہننا۔4 حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
شہادت: آپ کے دور خلافت دس سال چھ ماہ بعد23ھ ‘ذی الحجہ کی 26 یا 27 تاریخ بروز بدھ نماز کی امامت کے دوران آپ پر ابو لولو فیروز نامی ایک پارسی غلام نے خنجر سے حملہ کیا، آپ کو شدید زخمی حالت میں گھر پہنچایا گیا۔ آخر یکم محرم الحرام 24ھ کو آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی۔ آپ کی شہادت کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu