Open Menu

Anbia Alaihi Salam Aur Rasoloh Alaihi Salam Ki Sir Zameen - Article No. 2513

Anbia Alaihi Salam Aur Rasoloh Alaihi Salam Ki Sir Zameen

انبیاء علیہ السلام اور رسُولوں علیہ السلام کی سر زمین - تحریر نمبر 2513

ارضِ مقدس فلسطین یروشلم کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امان دی تھی

ہفتہ 20 اکتوبر 2018

محسن فارانی
لُوئی ہفتم اور توران شاہ کا معاہدہ (مئی1250ء):
سلطان مصر وشام توران شاہ ایوبی نے قیدی شاہ فرانس کو ا س شرط پر صلح کی پیشکش کی کہ شام کے تمام قلعے جو عیسائیوں کے قبضے میں ہیں ،خالی کر دیے جائیں ۔لُوئی نے جواب دیا کہ میں ان قلعوں کا مالک نہیں ۔
وہ فریڈرک دوم شاہ جرمنی ویرو شلم کی ملکیت ہیں ۔آخر کار اس با ت پر قبضہ ہوا کہ شہر دمیاط کو صلیبی خالی کر دیں اورلوئی اپنی رہائی کیلئے10لاکھ بازنطینی بزانٹ اور اپنے امراء کی رہائی کے عوض 5لاکھ فرانسیسی اشرفیاں اداکرے۔

تو ران شاہ نے لوئی کے فدیے کا پانچواں حصہ یعنی2لاکھ بزانٹ چھوڑ دیے ۔لُوئی کو ملکہ شجرة الدر کے حکم پر منصورہ کے قید خانے میں رکھا گیا تھا۔
توران شاہ کا قتل (1250ء):
ملک العظم توران شاہ ،ایوبی سلطنت کا آخری حکمران ثابت ہوا۔

(جاری ہے)

اس نے صرف 70دن حکومت کی۔وہ ممالیک (غلاموں)کے اثر ورسوخ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ایک رات اس نے شراب کے نشے میں جلتی شمعوں پر تلوار چلا کر کہا کہ میں ممالیک سے یہ سلوک کروں گا۔

ایک مملوک دیکھ رہا تھا،چنانچہ ممالیک نے ملکہ شجرة الدر سے مل کر سازش کی۔سپہ سالارفارش الدین اقطائی نے توران شاہ کو قتل کر دیا اور ملکہ شجر ة الدر کی حکومت کا اعلان کرکے مصریوں سے اس کی بیعت لے لی مگر اہل شام نے عورت کی بیعت سے انکار کر دیا اور آخری عباسی خلیفہ مستنصم باللہ نے بھی قاہرہ پیغام بھیجا کہ تمہارے پاس حکومت کیلئے کوئی مرد نہیں تو ہم کسی کو بھیج دیتے ہیں ۔
شجر ة الدر نے لُوئی کو نصف فدیے کی فوری ادائیگی پر رہا کر دیا ۔لُوئی نے قسم کھا کر وعدہ کیا کہ اس کے بعد وہ مصر لوٹ کر نہیں آئے گا مگر عکّا پہنچ کر اس نے قسم توڑ دی۔
شجرة الدر:مصر کی پہلی حکمران ملکہ:
ادھر شجرة الدر کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس کیلئے مصر پر تنہا حکومت کرنا مشکل ہو گا،لہٰذا اس نے ایک کمزور مملوک سردار عز الدین ایبک سے شادی کر لی تا کہ اس کے نام پر خود حکومت کرتی رہے ،چنانچہ وہ خود تخت سے دستبر دار ہو گئی اور ایبک کی نئے سلطان کے طور پر بیعت کر لی گئی اور اس نے ملک المعزلدین اللہ ایبک کے نام سے حکومت کا آغاز کیا۔
یوں 648ھ1050/ء میں مصر میں میں ممالیک کی سلطنت قائم ہو گئی۔اگلے سال اہل شام نے بھی ایبک کی بیعت کرلی لیکن عملاً امور حکومت شجرة الدر کے ہاتھ میں تھے۔اس نے مصر کی فوجی قوت بڑھائی اور بحری بیڑے کو مضبوط کیا۔
ممالیک اور ایوبیوں میں صلح:
649ھ1251/ء میں جب مصر ممالیک کے زیر حکومت تھا،ومشق (شام)،حلب اور موصل پر ایوبی سلاطین کی حکوت تھی جنہیں مصر پر حکومتِ ممالیک گوارانہ تھی۔
اس دوران میں لُوئی نہم نے عکا پہنچ کر یروشلم واپس لینے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔جب عباسی خلیفہ کو صلیبی خطرے کا احساس ہوا تو اس نے ایوبیوں اور ممالیک میں صلح کر ادی اور طے پایا کہ بیت المقدس،غزہ اور نابلس (فلسطین)ممالیک کے تحت ہوں گے اور باقی شام اور دیگر علاقے (موصل وغیرہ)ایوبیوں کے پاس رہیں گے۔
شاہِ فرانس کی شاہِ انگلستان سے مدد طلبی:
لُوئی ہفتم نے شاہِ انگلستان ہنری کو لکھا کہ”جس قدر جلدی ہو سکے کافی تعداد میں فوج لے کر میری مدد کو آؤ ۔
اس نے عوض میں فرانس کا علاقہ نارمنڈی تمہیں دے دوں گا۔“علاوہ ازیں اس کا خیال تھا کہ پوپ نے شاہ فریڈرک دوم سے اپنا معاملہ درست کر لیا ہو گا اور پوپ اپنے بچوں (صلیبی جنگجوؤں)کی مدد کو بذاتِ خود آئے گا مگر یورپی بادشاہوں کی باہمی محاذ آرائی کے باعث کوئی مدد کو نہ آیا۔لُوئی کے بھائیوں کا ؤنٹ آف آنجواور کاؤنٹ آف پوئٹیر نے بھی اس کاساتھ چھوڑ دیا تھا۔

لُوئی کا زیارتِ یروشلم سے انکار:
اب لُوئی ہفتم نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور اپنے داروغہ کو ساتھ لے کرنا صرہ شہر (شمالی فلسطین)کی زیارت کو روانہ ہو گیا جہاں مسیح علیہ السلام شیر خوارگی میں اپنی والدہ کے ساتھ مقیم رہے تھے ۔اس نے سلطان دمشق کی پیشکش کے باوجود یروشلم میں روضہ مسیح(Holy Sepulcher)کی زیارت سے انکار کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس شہر مقدس کو فتح کرنے کی آرزو میں ناکام رہے اور بعد والے پُر جوش شابانِ یورپ اسے فتح کر کے نیک نام ہوں ۔
گویا وہ بیت المقدس کو فتح کر کے روضہ مسیح کی زیارت کا خواہش مند تھا ۔
لُوئی کی شاہ دمشق کے پاس سفارت:
لُوئی ہفتم 1254ء تک عکا میں مقیم رہا تھا جو ساحل فلسطین پر باقی رہنے والا بڑا صلیبی مرکز تھا۔فرانسیسی صلیبی سُورماژاں ڈی ژاوین ویل شاہ لُوئی کے ہمراہ آٹھویں صلیبی جنگ(1248-50ء)میں شریک رہا تھا ۔وہ لکھتا ہے کہ لُوئی نہم نے اپنے قیام عکا کے دوران میں شاہ دمشق کے پاس اپنا سفیر بھیجا تھا ۔
اس سفارت کے ساتھ جان ارمنی اس لئے دمشق گیا تھا کہ کمانیں بنانے کیلئے سینگ اور سر یش خرید لائے ۔اسے دمشق میں ایک بوڑھا مسلمان ملا تھا جس نے ارمنی سے کہا:”تم مسیحی اب ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور ذلیل وخوار ہو۔میں نے یروشلم کے صلیبی بادشاہ بالڈون کو دیکھا تھا ۔وہ کوڑھی تھا اور اس کے ساتھ صرف 300مسلح آدمی تھے لیکن تم اپنے گناہوں کے باعث اتنے گرچکے ہو کہ ہم تمہارا جنگلی جانوروں کی طرح رات دن شکار کرتے ہیں ۔

اسماعیلی شیخ الجبل لُوئی کے پاس انوکھی سفارت:
ژواین ویل حسن بن صباح کے فرقہ باطنیہ کے شیخ الجبل کی شاہ لُوئی کے پاس آنے والی سفات(1251)کا ذکر یوں کرتا ہے :”عکّا میں بادشاہ کے پاس شیخ الجبل کے ایلچی آئے۔ان کے امیر کے پیچھے ایک خوش پوش نوجوان تھا جس کی مٹھی میں تین چھریاں تھیں جن کے پھل ایک دوسری کے دستے میں پیو ست تھے تاکہ اگر بادشاہ باطنی سفیر کی پیش کردہ تجویز منظور نہ کرے تو وہ چھریاں مقابلے کی علامت کے طور پر پیش کر دے۔
خوش پوش نوجوان کے پیچھے دوسرے نوجوان کے بازوپر لپٹی ایک چادر تھی تا کہ بادشاہ اگر سفارت کا مطالبہ منظور کرنے سے انکار کرے تو وہ چادر اس کے کفن کیلئے پیش کر دی جائے۔“یہ گویا شیخ الجبل خور شاہ کی طرف سے موت کی دھمکی تھی۔
شیخ الجبل کا عجب پیغام:
باطنی شیخ الجبل کا سفیر بولا”آپ میرے آقا کو جانتے ہیں یا نہیں ؟“بادشاہ نے کہا:میں نے اس کا ذکر سنا ہے ۔
سفیر نے کہا”پھر آ پ نے انہیں اپنے خزانے کے بہترین تحفے کیوں نہیں بھیجے جیسے جرمنی ‘ہنگری‘بابل(قاہرہ )کے سلدان(سلطان)اور دیگر سلاطین سال بسال بھیجتے رہتے ہیں ۔وہ سب خوب جانتے ہیں کہ ان کی زندگیاں میرے آقا کی مرضی پر موقوف ہیں ۔وہ جب چاہے ان کی زندگیوں کا خاتمہ کر ا سکتا ہے ۔“یہ شیخ الجبل کی طر ف سے شاہ فرانس کو مرعوب کرنے کی کوشش تھی لیکن بادشاہ نے یہ معاملہ صلیبی ٹیمپلرز کے حوالے کر دیا اور انہوں نے بیچ میں پڑکران دونوں میں دوستانہ تعلقات قائم کرادیے جیسا کہ ٹیمپلرز سے شیخ الجبل کے پرانے تعلقات تھے اور انہوں نے شیخ الجبل کے فدائین سے بعض سلاطینِ اسلام کو قتل کرانا چاہا تھا۔

صلیبی بادشاہ کیلئے شیخ الجبل کے تحائف:
ژاوین ویل لکھتا ہے کہ اس کے بعد شیخ الجبل نے لوئی کو جو تحفے بھیجے‘ان میں بلور کا تراشا ہوا ایک ہاتھی اور ایک زرافہ بھی تھا ‘نیز بلور کے سیب اور شطرنج بھی تھے ‘جیسے کہ الموت (ایران)کا باغ بہشت ایسی چیزوں سے آراستہ کیا گیا تھا ۔اس کے بعد اس سفارت کا حال بیان کیا ہے ۔جو لُوئی نے شیخ الجبل کے پاس بھیجی ۔
ژواین ویل کے بقول شیخ الجبل ٹیمپلرز کے سردار کو ایک سالانہ رقم بطور خراج دیا کرتا تھا ۔یوں صلیبیوں اور شیخ الجبل میں مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک اتحاد قائم تھا ۔لیکن عرب مورخین کے مطابق صلیبی جماعتوں ہاسپٹلرز اور ٹیمپلرز کی طرف سے اپنی جانوں کی سلامتی کیلئے شیخ الجبل کو نذرانے بھیجے جاتے تھے حتیٰ کہ نام نہاد شاہ یروشلم فریڈرک دوم نے بھی اس طرح کی راہ ورسم قائم رکھی تھی۔

اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق باطل صلیبی نظریے:
ژواین ویل شیعہ سنی اختلافات کے حوالے سے غلط طور پر لکھتا ہے :”شیعہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی شریعت پر نہیں چلتے ‘علی رضی اللہ عنہ کی شریعت پر چلتے ہیں ۔علی رضی اللہ عنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے (حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد تھے)“ژواین ویل کا یہ باطل بیان تمام تر ان جھوٹے خیالات سے ماخوذ ہے جو صلیبی جنگوں کے آغاز سے پادریوں نے پھیلا رکھے تھے۔
‘مثلاً یہ کہ ”موہامت“(Mohamet)سونے کا خوفناک بُت ہے جس کی مسلمان پوجا کرتے ہیں نعوذباللہ ۔چنانچہ فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کے قدیم ڈراموں میں ”ترواگاں“اور تریواگاں “کو مسلمانوں کے ایک ہو لناک بت کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا ۔یہی لفظ قدیم انگریزی میں ”ٹروگینٹ“(Tervgent)بن گیا ۔اور پھر یہ لفظ ایسی عورت کیلئے بولنے لگے جو دحشیانہ اور بے لگام مزاج رکھتی ہیں ۔

مسلمانوں کے آتشیں بان اور صلیبی گھٹنوں کے بل:
ژواین ویل معرکہ منصورہ (مصر )کے سلسلے میں لکھتا ہے :”ایک رات ہم ان برجیوں پر جو دریائی راستے کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھیں ،پہرہ دے رہے تھے کہ مسلمانوں نے ایک پٹر یری (منجنیق کا ساآلہ)لا کر نصب کر دی اور اس سے ہم پر آگ (آتشِ یونانی)پھینکنے لگے ۔میرے افسر والٹر نے کہا:”ہم ان برجیوں کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ یہاں جمے رہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ہی ہم جل کر خاک ہو جائیں گے ۔
جونہی مسلمان آگ کے بان پچکاریاں چلائیں ،ہمیں چاہیے کہ گھٹنوں کے بل جھک کر اپنے نجات دہندہ خداوند (مسیح علیہ السلام)سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے“۔چنانچہ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا ،ہم گھٹنوں کے بل جھک کر دعا کر نے لگے۔“
آتشیں اژدہے کی گرج اور لُوئی ہفتم:
صلیبی نائٹ ژواین ویل کے بقول ”یہ بان اتنے بڑے تھے جیسے شراب کے پیپے۔
ان سے نکلتے آگ کے شعلے کی دُم ایک بہت بڑے نیزے کی سی تھی ۔جب بان آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں اور ان کی شکل ایسی دکھائی دیتی جیسے آتشیں اژدہا ہوا میں اڑرہا ہو ۔اس کی روشنی سے ساری چھاؤنی میں اجالا ہو جاتا ۔بان چھوٹتا تو ہمارا ولی صفت بادشاہ بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا اور روتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر ہمارے نجات دہندہ سے التجا کرنا:”مہر بان آقا ! میرے آدمیوں کی حفاظت کر!“

Browse More Islamic Articles In Urdu