Open Menu

Anhazrat Sale Allah Aleh Wasallam Ke Mutaliq Quresh Ka Aakhri Faisla - Article No. 2894

Anhazrat Sale Allah Aleh Wasallam Ke Mutaliq Quresh Ka Aakhri Faisla

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قریش کا آخری فیصلہ - تحریر نمبر 2894

جب قریش نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایتی اور دوست ،دوسرے قبیلوں سے اور دوسرے شہر میں پیدا ہو گئے ہیں

جمعرات 10 جنوری 2019

محمد عبداللہ مدنی

جب قریش نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایتی اور دوست ،دوسرے قبیلوں سے اور دوسرے شہر میں پیدا ہو گئے ہیں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ نہ صرف خود ہجرت کر کے وہاں جارہے ہیں ،بلکہ اپنے بال بچوں اور مال واسباب کو بھی اس اور خزرج کی طرف منتقل کررہے ہیں ،تو انہوں نے معلوم کیا کہ مسلمانوں کو محفوظ جگہ مل گئی ہے،اور ان کو پناہ دینے والے اس اور خزرج جنگ آزمودہ ،مسلح اور صاحب ہمت ہیں ۔


اب انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن سے جاملیں گے ،اور اُن کا مقصد جنگ کے بغیر اور کچھ نہیں اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں آخری فیصلہ کرنے کے لیے کمیٹی گھر میں جمع ہوئے اور تاکید کر دی کہ کوئی عقلمند اور سمجھدار آدمی ،جو مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہے پیچھے نہ رہے ۔

(جاری ہے)


ابن اسحاق ،ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،جب وہ وقت مقررہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فیصلہ کرنے کے لیے دار الندوہ میں جمع ہوئے تو شیطان بھی ایک بارُ عب اور تجربہ کا ر بزرگ کی شکل میں قیمتی لباس زیب تن کیے ،دروازے پر آکھڑا ہوا جب انہوں نے اس کو اس طرح دروازہ میں کھڑا دیکھا تو پوچھا کون بزرگ ہیں ؟“ا س نے کہا”میں نجدکار ہنے والا ہوں میں نے سُنا ہے کہ آپ لوگوں نے آج کوئی اہم فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس طلب کیا ہے ،میں اس اجلاس کی کارروائی سننا چاہتا ہوں ممکن ہے میں آپ کو کوئی صحیح مشورہ دے سکوں “،سب بولے ”ٹھیک ہے ،
تشریف لے آئیے“چنانچہ وہ اندر آیا اور ان کے ساتھ میٹنگ میں شریک ہو گیا۔


اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو قریش کے سر برآوروہ سردار ایک دوسرے سے کہنے لگے ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ،خدا کی قسم ! اس کا ارادہ اغیار کے تعاون سے ہم پر حملہ کر نے کے سوا اور کچھ نہیں ۔اب پانی سر سے گزر گیا ہے ،اس کے متعلق حتمہ اور آخری فیصلہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔اس لیے اپنی اپنی تجویز پیش کرو کہ آخر اس کا حل کیا ہے ؟“ایک آواز آئی کہ ”اس کو ہتھکڑی پہنا کر اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر کال کو ٹھڑی میں قید کردو۔
جس طرح دوسرے ،زہیر اور نابغہ جیسے شاعر ‘مر گئے ہیں ،اس کی موت کا انتظام کرو“۔
شیخ نجدی نے کہا:”والہ! یہ کوئی معقول تجویز نہیں ،اس کے ساتھیوں کو پتہ چلے گا ‘تو عین ممکن ہے وہ تم پر حملہ کرکے اس کو چھین لے جائیں پھر کسی مناسب وقت پر جوابی حملہ کرکے تمہیں موت کے گھاٹ اتار دیں ۔میری رائے میں تمہاری یہ تجویز معقول تجویز نہیں ،کوئی اور تجویز پیش کرو“دوسرا سر دار بولا”اس کو جلا وطن کردو جب ہم اس کو ملک بدر کردیں گے ‘تو ہماری بلا سے جہاں چاہے جائے،ہم روز روز کی مصیبت سے نجات پالیں گے اور باہمی اختلاف دور کرکے پہلی سی پُرامن زندگی بسر کرنے لگیں گے‘شیخ نجدی بولا”خدا کی قسم! پہلی تجویز کی طرح یہ تجویز بھی کوئی معقول تجویز نہیں ۔

اس کی فصاحت وبلاغت اور شیریں کلامی تم جانتے ہی ہو ،وہ باتوں باتوں میں دوسروں کے دل موہ لیتا ہے جہاں جائے گامیٹھی میٹھی باتوں سے وہاں کے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لے گا،پھر اُن کو ساتھ لے کر تم سے اقتدار چھین لے گا اور پھر تمہارے ساتھ وہ سلوک کرے گا ،جو اس کا دل چاہے گا کوئی اور تدبیر سوچو؟“اس پر ابو جہل بولا”میرے دماغ میں ایک تجویز آئی ہے ،جو ابھی تک تمہارے دماغوں میں نہیں آئی “۔

سب نے چوکنے ہو کر پوچھا”ابو الحکم ! وہ کیا ہے ؟اس نے کہا”میری رائے یہ ہے کہ ہم ہر قبیلہ سے ایک ایک بدن کا مضبوط ،ارادہ کا پکا اور تلوار کا دھنی نوجوان لیں ۔پھر ہر ایک کو قاطع تلوار دے کر حکم دیں کہ وہ یکبارگی حملہ کرکے اس کو قتل کردیں ،اس طرح اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا‘اور بنو عبدمناف اپنی ساری قوم سے لڑ نہیں سکیں گے ۔
زیادہ سے زیادہ وہ دیت کا مطالبہ کریں گے ،جسے ہم آسانی سے ادا کر دیں گے “۔یہ سن کر شیخ نجدی چلا اٹھا بس ! بس !! یہی معقول تجویز ہے اس کے علاو ہ تمہاری مصیبت کا اور کوئی حل نہیں “۔چنانچہ یہ تجویز بالا تفاق پاسہو گئی ۔
جلسہ بر خاست ہوا اور سب نے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے اپنے گھر کی راہ لی ۔اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخر کہا،”آج رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر نہ سوئیں “اور کفار کے منصوبہ سے آگاہ کیا۔
عشاء کے وقت طے شدہ پروگرام کے مطابق تمام قبائل کے نوجوان مسلح ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر جمع ہو گئے اور انتظار کرنے لگے ،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا ،آج رات تم میرے بستر پر لیٹو! اور میری سبز حضرمی چادر اوڑھ لو اور بے فکر رہو تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت یہی چادر اوڑھ کر سوتے تھے ۔

ان اسحاق رحمتہ اللہ علیہ محمد بن کعب قرظی رحمتہ اللہ علیہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ قریش کے سب نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر جمع ہوئے ،ان میں ابوجہل بھی تھا ۔وہ کہنے لگا :”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے کہ اگر تم اس کا دین قبول کر لو گے ،تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے پھر مرنے کے بعد اُٹھو گے ،تو تمہیں اُردن کے باغوں جیسے باغات ملیں گے اور اگر یہ نہ کرو گے ‘تو ذبح ہو جا ؤ گے ،پھر مرنے کے بعد اُٹھو گے ،تو آگ میں گرو گے جہاں ہمیشہ جلتے رہو گے “اس نے ابھی اتنی بات کہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور مٹی کی مٹھی لے کر کہا”ہاں ! میں یہ کہتا ہوں ،اور تو ان میں سے ایک ہے “پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں بند کردیں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پر مٹی ڈالتے اور سورة یٰس “کی آیتیں پڑھتے ہوئے نکل گئے وہ آیات یہ ہیں ۔

”قسم ہے قرآن حکیم کی یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شمار اللہ کے رسولوں میں ہے اور ہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کردی ،اور ان کے پیچھے دیوار کھڑی کردی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا،اس لیے وہ نہیں دیکھتے تھے “۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو سب حاضرین کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے جہاں جانا تھا چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھ سکا۔

پھر سکی نے ان سے آکر پوچھا ،تم یہاں کس کا انتظار کررہے ہو“؟بولے”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا “اس نے کہا،”اللہ تعالیٰ تمہیں ناکام کرے ۔نجدا!محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو تمہارے پاس سے نکل گیا ہے اور تم میں سے ہر ایک آدمی کے سر پر مٹی ڈال گیاہے ،اور جہاں جانا تھا چلا گیا ہے ،تم اپنے سر پر مٹی نہیں دیکھتے ہو ؟“پھر ہر آدمی نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو سچ مچ اس کے سر میں مٹی تھی ۔
پھر اندر دیکھا تو علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں لپٹے ہوئے پایا ۔کہنے لگے :”خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ اپنی چادر اوڑھے اپنے بستر پر لیٹا ہے “پھر وہ بدستور صبح تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے جب صبح کے وقت علی رضی اللہ عنہ بستر سے اٹھے تو کہنے لگے ،”خدا کی قسم! اس کہنے والے نے سچ کہا تھا“۔

ابن اسحاق کے علاوہ دوسرے مورخین نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر جمع ہونے والے یہ لوگ تھے،ابو جہل حکم بن ابی العاص ،عقبہ بن ابی معیط ،طعیمہ بن عدی ،ابولہب ،ابی بن خلف ،امیہ بن خلف ،ربیعہ بن اسود ،نضر بن حارث اور نبیہ اور منبہ ،حجاج کے بیٹے اور ابن ابی حاتم کی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جس کو امام حاکم نے صحیح کہا ہے ،کہ اس رات جس کو کنکر لگا تھا ،وہ بحالت کفر جنگ بدر میں قتل ہو ا ۔

ابن اسحاق نے کہا ہے کہ اس رات اس مقصد کے لیے جو لوگ جمع ہوئے تھے، ان کے متعلق یہ آیت اتری :”واذیمکربک الذین کفرویشبتوک اویقتلوک اور یخر جوک ۔“اور اس وقت کو یاد کریں ،جب کفار ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تدبیر یں کررہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کردیں ،یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں ،یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک سے نکال دیں “۔اور یہ آیت بھی اتری :”ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون”بلکہ کہتے ہیں ،یہ شاعر ہے ہم اس کی موت کا انتظار کرتے ہیں “۔

Browse More Islamic Articles In Urdu