Open Menu

Asma Ul Husna - Al Jabbar - Article No. 1853

Asma Ul Husna - Al Jabbar

اسماء الحسنیٰ - الجبار - تحریر نمبر 1853

اسم الجبار کی صفات میںطاقتور دشمنوں کو زیر کرنے کا اور جس شخص کی ذلت ہوئی ہو آبرو کو معاشرے میں نقصان پہنچاہو اسے بحال کرنے کی خاصیت ہے۔

جمعہ 25 مئی 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
غلبہ اور جبر رکھنے والا، اعداد ابجد206، تحفظ اور دشمنوں پر غلبے کے لیے موثر اسم۔
اسم الجبار کی صفات میںطاقتور دشمنوں کو زیر کرنے کا اور جس شخص کی ذلت ہوئی ہو آبرو کو معاشرے میں نقصان پہنچاہو اسے بحال کرنے کی خاصیت ہے۔ جس شخص کو اپنے طاقتور دشمن سے خوف ہو تو اسے چاہیے کہ اسم الجبار کو اس کے اعداد ملفوطی کی تعداد 368کے مطابق پڑھے، ہر نامز کے بعد اس کا ورد دشمن کو مغلوب کر دے گا۔

اسی طرح اگر ہر نماز کے بعد ” اسم یا جبار“ کو 206بار پڑھے تو دشمن خراب حال اور منتشر ہو جائے لیکن لازم ہے کہ سات جمعہ تک مسلسل یہ ورد کیا جائے۔اسم الجبار جبر سے نکلا ہے جس کے معنی درستگی کے ہیں جبکہ اس کے برعکس لفظ کسر آتا ہے جس کے معنی شکستگی کے ہیں یہ اسم مبارک اللہ تعالیٰ کا ہے اور ان معنوں میں لیا جاتا ہے جو ٹوٹ پھوٹ اور پریشانی سے بچاتا ہے یہ الجبا ر ہی تو ہے جو درد مندوں کی دوا، شکستہ دلوں کے لیے دعا اور ٹوٹی ہوئی کشتی کو بحفاظت منزل مقصود تک پہنچانے والا ہے۔

(جاری ہے)

اسم الجبار کی عملی وضاحت کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ زمین حرکت میںہو یا سکون میں سورج چلتا ہو یا آسمان رواں ہو سیارے حرکت میں ہوں یار کے ہوئے سب کی حرکات کو اس رب الجبار نے جبر کے ساتھ اپنی اپنی حدود کے اندر مقید کر دیا ہے جو اس کی قدرت کا ملہ ہے۔ آپ بھی صاحب فہم و فراست ہیں کہ انسان فرشتہ نہیں بن سکتا جن انسان نہیں بن سکتے بلکہ فرشتے بھی انسان نہیں بن سکتے کیونکہ یہ فیصلہ الجبار کا ہے کہ وہ جسے جس شکل میں چاہے بنا دیتا ہے۔
پھرمثال دینی پڑتی ہے کہ رزق کی نوعیت مختلف ہوتی ہے مثلاََ شیر گوشت کی جگہ گھاس نہیں کھا سکتا ۔ انسان جانوروں کی طرح دانے پانی پر گزارہ نہیں کر سکتا،درندے انسانی اور حیوانی خون پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔غرضیکہ انسان اور حیوان کا رزق جدا جدا ہے اسی طرح جو رزق اور اس کی مقدار مقدر میںلکھی ہے اس سے کم و زیادہ نہیں کھا سکتا تو معلوم ہوا کہ پوری کائنات اس الجبار کے جبر کے زیر اثر ہے۔

انسان جو بڑا باکمال اور ہر فن مولا بنا پھرتا ہے جمبور محض ہے مثلاََ وہ نو ماہ شکم مادر میں پروان چڑھتا ہے پھر دنیا میں آتا ہے اور وہی غذا کھاتا ہے جو عمر اور وقت نے اس کا مقدر بنائی ہے پھر انسان عالم شباب میں آتا ہے پھر بڑھاپے کی طرف جاتا اور بالآخر اسے سفر آخرت کا مسافر بننا پڑتا ہے اس جبر کے پیچھے بھی اسم الجبار کی کارفرمائی ہے قدرت ہے۔
پھر بھی کوئی یہ تصور کرے کہ جو شخص غریب ہے وہ بادشاہ کیسے بنے گا اور جوبادشاہ ہے اسے غربت کا ہے کو پکڑے گی مگر یہ الجبار کا لکھا ہوا ہے کہ کسے بادشاہت ملنی ہے وہ چاہے کیسے ہی گرے پڑے گھر کا فرد ہو بادشاہ بنے گا اور جس کے نصیب میں فقروفاقہ لکھ دیا گیا ہے خواہ وہ شاہی محل میں پیدا کیوں نہ ہوا ہو فاقے سے دوچار ہو کر رہے گا۔پھر سزا و جزا کیسی؟ مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ گدا سب مجبور محض ہیں۔
آگ پانی مٹی ہوا کی جو خاصیت ہے وہ قیامت تک یہی رہے گی بدل نہیں سکتی کیونکہ جبار نے اسی کو ایسی تقدیر کے تحت رکھا ہے۔انسان اپنی کوشش ہمت سے کچھ کرنا چاہتا ہے تو حالات زمانہ اس کے لیے وہ حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کی راہ کے بجائے بادل نخواستہ ان کی راہ پر چلنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں اکثر ایسے واقعات آتے رہتے ہیں کہ حالات یا تقدیر بنے بنائے گھر اجاڑ دیتی ہے اور جو ناجائز ذرائع اور غلط کاموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے گھر آباد اور حالات بہترین ہو جاتے ہیں بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا کے اسٹیج پر دنیا والے اپنااپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کا انجام کیا ہوگا۔
انسان اس سے بے خبر ہے حالانکہ خدانے اس کی تقدیر میںجو لکھ دی وہی ہو گا تقدیر میںلکھے ہر ثواب و عذاب کا سلسلہ اکثر لوگوں کو جذباتی بنا دیتا ہے مگر یہ اسرار الٰہی ہیں ان پر نکتہ چینی یا تبصرے کی گنجائش نہیں۔اسم الجبار میںجبر کا مادہ ہے اور تقدیر کی حدود میں رہتے ہوئے انسان جبر کے زیر اثر بھی ہوتا ہے اور جو کرنا چاہتا ہے وہ کرنے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن اصل نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہوتا ہے جس پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ انسانوں کو تقدیر کے اس جبر سے نکال کر منزل مراد پر بھی یہی الجبار پہنچاتا ہے۔
جبر اور تقدیر کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک شخص کو جو عملی درس دیا تھا۔ وہ آج بھی ہمیں شعور تقدر عطا کرتا ہے اسی شخص سے حضرت علیؓ نے کہا کہ اپنا ایک پاو¿ں اٹھاو اس شخص نے اپنا پاو¿ں اٹھا لیا، پھر اس شخص سے دوسرا پاو¿ں اُٹھانے کو کہا وہ شخص بولا دوسرا پاو¿ں اٹھاو¿ں گا تو گر جاو¿ں گا حضرت علیؓ نے کہا کہ بس انسان اتنا ہی با اختیار ہے کیونکہ وہ تقدیر خداوندی کے آگے قطعی طور پر بے اختیار ہے۔
اسم الجبار کی برکات نے بھی انسان کے مسائل کو وسائل سے بدلا ہے اور اس پر جبر تقدیر بھی عائد کی ہے مگر انسان مجبور محض ہونے کے باوجود اختیار کا بھی ایک حد تک مالک ہے اسی لیے اس سوال و جواب، عذاب و ثواب کا معاملہ کیا جائے گا تقدیر جبرو قدر کا فلسفہ سمجھنے کے لیے بھی اسم الجبار کی صفات مددگار ثابت ہوتی ہیں اسی الجبار نے نظام کائنات کے بجائے دن نکل آئے بارش کے موسم میںخزاں ہو اور خزاں کے دور میں بارش کا سلسلہ شروع ہو جائے سردی میںگرمی نہیں ہوتی اور گرمی میں انسان کے لیے سردی کا اہتمام نہیں ہوتا یہ سب الجبار کی قدرت کا ملہ کی کرشمہ سازی ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu