Open Menu

Asma Ul Husna - Al Qudos - Article No. 1812

Asma Ul Husna - Al Qudos

اسماء الحسنیِ ۔القدوس - تحریر نمبر 1812

اسم القدوس کا مطلب وہ ذات والا صفات ہے جو ہر قسم کے معائب و نقائص سے مبرا ہو ہر ضرورت و حاج سے بری ہو۔ اس اسم کے ورد سے انسان میں فرشتوں جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اس اسم کو زعفران اور عرق گلاب سے لکھ کر پینا دل و نظر میں نور پیدا کرتا ہے اور فسق و فجور سے بچاتا ہے۔

جمعہ 18 مئی 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
ہر عیب و نقائص سے پاک، بے عیب ذات، اعدا دابجد170، دل کی صفائی کا ذریعہ، توجہ خداوندی کا حصول۔
اسم القدوس کا مطلب وہ ذات والا صفات ہے جو ہر قسم کے معائب و نقائص سے مبرا ہو ہر ضرورت و حاج سے بری ہو۔ اس اسم کے ورد سے انسان میں فرشتوں جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اس اسم کو زعفران اور عرق گلاب سے لکھ کر پینا دل و نظر میں نور پیدا کرتا ہے اور فسق و فجور سے بچاتا ہے۔

جو شخص اسم القدوس کو بعد نماز جمعہ روٹی کے بیس ٹکڑوں پر لکھ کر کھائے اس کے اندر اعلیٰ اوصاف و اخلاق پیدا ہو جائیں گے اسم القدوس کو 170بار پڑھنے سے دل احکامات خداوندی اور حق تعالیٰ کی طرف مائل ہو بکثرت یا قدوس کا ورد کرنے سے دشمن سے نجات پائے۔حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے اسمِ مبارک قدوس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے حضور اکرم ﷺ بعد از فراغت و ترسبحان الملک القدوس، سبحان الملک القدوس، سبحان الملک القدوس ربنا ورب الملئکة والروح پڑھا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

سبوح، قدوس پڑھنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اسم سبحان الملک القدوس کے ورد میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی گئی ہے اس کے ساتھ رب الملئکة والروح کے ارشاد سے یہ حکمت ظاہر ہوتی ہے کہ فرشتوں کو بھی قدسی صفت کہا جاتا ہے جبکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی روح اقدس کہا جاتا ہے ۔ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذات باری تعالیٰ کے تقدس میںیہی معنی نہ لے کہ وہ انسانی تقاضوں سے بالاتر ہے بلکہ یہ یقین و ایمان بھی رکھے کہ اللہ تعالیٰ کا قدوس ہونا نورانی فرشتوں اور روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام کی ذات میں جو کمی ہے، ذات قدوس میں اس کا شائبہ تک نہیں۔
باوضو کو کر اس اسم یا قدوس کا ورد کرنے والا دنیا میں خود کو منفر بنا سکتا ہے اور صفات اعلیٰ سے مالا مال بھی۔
اسم القدوس کے علمی جائزے میں ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ناموں سے پاک ذات ربانی کا یہ اسم مبارک قرآن کریم کے اٹھائیسویں پارے میں ہے جس کا ترجمہ ہے۔
”وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو بادشاہ اور پاکیزہ ہے“۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہوا ، ترجمہ:” تسبیح پڑھتے ہیں اللہ کی جو کچھ زمین و آسمان ہے وہ بادشاہ پاکیزہ عزیز ع حکیم ہے۔

ذات باری تعالیٰ کے سوا کامل تقدس فرشتوں سمیت کسی کو حاصل نہیں اللہ ہر جگہ موجود ہے اور مقدس ہے۔ اس بات میں جو باریک سی تشکیک اہل علم کے ذہنوں میں اکثر پیدا ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود حاضر و ناظر ہے تو پھر وہ بعض غلیظ اور آلودہ مقامات پر بھی ہو گا اس طرح وہ قدوس و پاکیزہ نہیں رہ سکتا۔اس سلسلے میںیہ بات ان کے ذہنی شک کے رفع کرنے کے لیے کافی ہو گئی کہ تقدس اللہ تعالیٰ کا ذاتی اور مستقل وصف ہے تقدس اس کی ذات کا عارضی پہلو نہیں جو اس کا ساتھ نہ دے سکے۔
یہ بات بھی تمام اہل علم و بصیرت جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے سمندروں میںان شہروں اور ملکوں کی تمام تر غلاظت اور آلودگی بہادی جاتی ہے اس کے باوجود بھی سمندر کا طاہر اور پاکیزہ ہونا تسلیم کیا جاتا ہے اور ان بھی ظاہری اور باطنی گندگی سے خود کو بچائے رکھے گا تو پاک باز انسان کہلائے گا۔ ظاہر گندگی وہ ہے جسے ہم محسوس کرتے اور دیکھ سکتے ہیں جبکہ باطنی گندگی سے نجات کا ذریعہ، نماز، روزہ، زکوة، ذکر و فکر، عمل و حسن خلق وغیرہ ہیں جس کی وجہ سے انسان اعمال حسنہ کرتا ہے اور اسم القدوس کی برکات کا پرتو بن جاتا ہے۔
اسم القدوس کے تسلسل میںیہ کہنے کی ضرورت موجود ہے کہ ہم نیک و بد اعمال کو گڈمڈ کرتے رہتے ہیں اور اپنی ذات کو منوانے میں بھی الٹ پلٹ کرتے رہتے ہیں۔ آج کے انسان کی یہ بھونڈی کوشش بھی مسلسل جاری ہے کہ وہ کام برائی کے کرے مگر نیک نام کہلائے حالانکہ نیک نامی کے حصول کے نیک عملی کی بھی ضرورت ہوتی ہے عملی نیکی بھی انسان کے تقدس کا ذریعہ بنتی ہے۔

سائنسی علوم سے واقفیت رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ مادے سے بنے انسان کا کامل تقدس ممکن نہیں کیونکہ مادے میں جو کیمیاوی اور طبعی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اس لیے ہماری ذات میں یک رنگی اور یکسانیت کے بجائے ۔ بدرنگی، ٹوٹ پھوٹ گلنا سڑنا ، شکل کی تبدیلی، بدبو، خوشمنائی اور بدنمائی کا عمل جاری رہتا ہے اس لیے تقدس کی نورانی کیفیات پر انسان پورا نہیں اترتا، انسان تو رہا ایک طرف فرشتے اور دیگر اعلیٰ خصوصیات کے روحانی اجسام بھی ان شرائط پر پورے نہیں اترتے، صرف اور صرف اللہ تعالٰ کی ذات والا صفات ہی ہے جو القدوس ہے اور تمام قدوسیت اسی القدوس کی ذات بابرکات کو خاص ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک شعر میں مسلمان ہونے کے اجزائے ترکیبی یہ بیان کیے ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اب ہر مسلمان خود اپنی ذات کا محاسبہ کر کے دیکھ لے کہ وہ کس منزل پر فائز ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu