Open Menu

Asma Ul Husna- Al Raheem - Article No. 1796

Asma Ul Husna- Al Raheem

اسماء الحسنیٰ: الرحیم - تحریر نمبر 1796

رحمت خاص سے اجر دینے والا، آخرت میں اپنے خاص بندوں پر رحمت فرمانے والا، اعداد ابجد 259، دین و دنیا کی بھلائی کے لیے خاص۔ الرحمن اور الرحیم کے اسمائے ربانی بظاہر ہم معنی دکھائی دیتے ہیں مگر ان میں نمایاں فرق ہے

منگل 15 مئی 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
رحمت خاص سے اجر دینے والا، آخرت میں اپنے خاص بندوں پر رحمت فرمانے والا، اعداد ابجد 259، دین و دنیا کی بھلائی کے لیے خاص۔ الرحمن اور الرحیم کے اسمائے ربانی بظاہر ہم معنی دکھائی دیتے ہیں مگر ان میں نمایاں فرق ہے مثال اس طرح سمجھئے کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے جس کی غذا، دوا رہائش و بقا، ذہنی اور مادی خوشیاں اور زندگی میں خاندانوں کو پروان چڑھانا اور اس سلسلے میں مسلم یا کافر کی کوئی تخصیص نہیں، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ الرحمن کی صفت عام ہے، سب انسان اس سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ الرحیم کی صفت خاص اپنے بندوں کے لیے ہے۔

جو کوئی شخص ہر نماز کے بعد اسم یا رحیم 259 بار پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اسے مخلوق سے بے نیاز فرمادے گا۔

(جاری ہے)

الرحیم کو ادائے قرض کی نیت سے اگر 2590(دو ہزار پانچ سونوے) بار کوئی پڑھے تو قرض ادا ہونے کے ساتھ جان و مال میں حفاظت و برکت ہو۔ روٹی کے 16ٹکڑوں پر زعفران اور عرق گلاب سے اسم یا رحیم کو لکھ کرکھانے والا امراض سینہ سے شفا پائے دل میں نور پیدا ہو۔

الرحیم سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ، اگر اسم الرحیم کو کوئی شخص سوا لاکھ بار پڑھے، تمام پرہیز اور کامل یکسوئی کے ساتھ تسخیر خلق ہو اور دنیا کی نظروں میں انتہائی معزز ہو جائے ۔ اس کا ذکر کبھی محتاج نہیں ہوتا اور اس کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے ۔ اسم الرحیم کا ورد نو چندی جمعرات سے شروع کرے اور ایک چلے تک بلاناغہ پڑھے اور پھر قدرت خداوندی کا کرشمہ دیکھے۔

اسم الرحیم کا ستعمال بے شمار آیات قرآنی میں ہوا ہے۔
سورہ الحجرات میں ہے۔
ان اللہ تو اب رحیم
اللہ اپنے پشیمان بندہ کی التجا قبول فرماتا ہے۔
سورہ البقرہ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت وشفقت اپنے بندوں کے ساتھ پورے جوش میں ہوتی ہے۔
اسم الرحیم کے علمی، ادبی محاسن اور خصوصیات پر توجہ کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رحیم رحمت و شفقت میں قلب مادر سے ستر گنا زیادہ محبت فرمانے والا ہے۔
اگرچہ دنیاوی اعتبار سے ایک ماں اپنی اولاد کے قریب سے گرم ہوا کا گزرنا بھی برداشت نہیں کر سکتی ، جائیکہ اس کا بچہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے اور وہ آرام سے بیٹھی رہے اور تڑپ نہ اٹھے؟ الرحیم بھی اپنے بندوں کی تکلیف پر تڑپ اٹھتا ہے اور وہ فوراََ اپنے بندے کی دعاو¿ں کی طرف توجہ فرماتا ہے دعاو¿ں کا قبول و مو¿ثر ہونے میں وقت آگے پیچھے ہو سکتا ہے ، لیکن الرحیم کی رحمت اور بندہ پروری بندگان خدا کو گھیرے ہوتی ہے۔
اسم الرحیم کا پر تو ایک ماںکی ذات میں بخوبی نظر آتا ہے وہ بھوکی پیاسی رہتی ہے مگر اپنی اولاد کی بھوک برداشت نہیں کر سکتی یہ کمال مادر، دیکھئے کہ شدید سردی میں اگر اس کا بچہ پیشاب سے بستر آلودہ کر دیتا ہے ت وہ اپنے بچے کو خشک اور گرم بستر کے حصے میں لٹا کر خود گیلے اور آلودہ حصے پر لیٹتی ہے تاکہ اس کا بچہ تکلیف سے بچا رہے چاہے اسے تکلیف اور بیماری کا شکار کیوں نہ ہونا پڑے وہ اپنے بچے کی خوشی میں خوش ہے۔
اگر چہ دنیاوی تعلیم و تربیت اور اپنی اولاد کی پرورش کے دوران وہ بچے کو ڈانٹی، مارتی اور جھڑکتی بھی ہے مگر اس عمل سے اس کی شفقت مادری ختم یا کم نہیں ہو جاتی۔ایسی ہی صورتحال اسم الرحیم کی بھی ہے کہ جس کے تحت اللہ رحیم اپنے بندوں پر مادر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات خدا اپنے بندوں کی طرف سے بے پردا ہو جائے اس کی وجہ بھی لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کہی جا سکتی ہے انہیں اپنے محاسبے کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔
اللہ رحیم اپنی مخلوق سے اپنے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کو تو معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن حقوق العباد اور لوگوں کے حقوق کی معافی کے لیے متعلقہ افراد کی طرف رجوع کئے بغیر معافی نہیں دیتا ۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی مہربان ماں اپنی اولاد کی اصلاح اور بہتری کے لیے انہیں سزا دلانے سے پیچھے نہیں ہٹتی اور بعض بعض اوقات اپنے مجرمانہ ذہن رکھنے والی اولاد کو پھانسی دلانے سے بھی نہیں ڈرتی۔
الرحیم بھی اپنے قانون کی پکڑمیں آنے والے اور سزا پانے والوں سے اگر مہربانی سے پیش آتا ہے تو یہ اس کے اسم الرحیم کی ہی برکات ہیں جو بندہ دنیا بھر کی برائیاں کرنے کے بعد اپنے رحمن و رحیم رب سے معافی اور جان بخشی کا طالب ہوتا ہے وہ امان پا جاتا ہے۔ تو جہ طلب بات ہے کہ اگر دنیا کا کوئی انسان زہر کھا لے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے خودکشی کر لے تو بے موت بھی مر جاتا ہے مگر الرحیم فوری سزا کے بجائے اپنی ٹھاٹھیں مارتی رحمت کے باعث انہیں چھوٹ دیتا رہتا ہے۔
اور اس کی ہلکی پھلکی پکڑ صرف خبردار کرنے ذریعہ ہوتی ہے۔ اسم الرحیم کے ذریعے جنہیں اپنے کئے کی سزا دنیا میں ہی مل جائے تو انہیں نصیب والا کہا جا سکتا ہے کیونکہ آخرت میںجو سزا ملے گی اس سے بچاو¿ کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے اس کے کہ رحمن و رحیم رب بخش دے۔اسم الرحیم کی رحمت نہ ہو تو دنیا کو جہنم بنانے والے خود جل کر بھسم ہو جائیں، دنیا کے نظام میں گیہوں کے ساتھ گھن پستے چلے آئے ہیں جس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ گھن، گیہوں جیسی پسنے والی غذائی شے کا ساتھی رہا اس لیے پیسا گیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اچھائی نہ کرنے والے خود اپنی شامت بلاتے ہیں لیکن الرحیم کے ذریعے بخشے بھی جاتے ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu