Open Menu

Asmaul Husna-Al-adl - Article No. 2013

Asmaul Husna-Al-adl

اسماء الحسنیٰ - اَلْعَدْلُ - تحریر نمبر 2013

اسم العدل کا ور د کرنے والا ہر کام حد اعتدال اور میانہ روی سے سر انجام دے، اس کا ذاکر اگر کسی کے لیے بددعا کرے تو اللہ اس کی تباہی کا سامان کر دے گااور شریرلوگوں کو اس کے راستے سے ہٹا دے گا ۔ جو شخص ہر شب جمعہ (جمعرات) کو روٹی کے اکیس ٹکڑوں پر اسم یا عدل لکھ کر کھائے، اس کے اند صفات نورانی پیدا ہو جائیں۔ جو شخص اسم یا عدل کو بعد نماز فجر پڑھے مگر کسی سے گفتگو نہ کرے،

پیر 25 جون 2018

پیر شاہ محمد قادری سرکار:
انصاف کرنے والا، لغوی معنی برابر کر دینے والا، اعداد ابجد104، خاصیت، ہر قسم کے شر اور مصائب سے نجات۔
اسم العدل کا ور د کرنے والا ہر کام حد اعتدال اور میانہ روی سے سر انجام دے، اس کا ذاکر اگر کسی کے لیے بددعا کرے تو اللہ اس کی تباہی کا سامان کر دے گااور شریرلوگوں کو اس کے راستے سے ہٹا دے گا ۔

جو شخص ہر شب جمعہ (جمعرات) کو روٹی کے اکیس ٹکڑوں پر اسم یا عدل لکھ کر کھائے، اس کے اند صفات نورانی پیدا ہو جائیں۔ جو شخص اسم یا عدل کو بعد نماز فجر پڑھے مگر کسی سے گفتگو نہ کرے، تعداد 10400بار ہو و اس کے دشمن ذلیل ہوں، اس کے گھر میں آسیب اور بلائیں داخل نہ ہو سکیں۔ اسم العدل پر علمی اعتبار سے غور کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا عدل سے خالی نہیں ہے ، عدل کی بنیاد پر ہی یہ نظام دنیا، فضا اور خلاء چل رہے ہیں، اگر اس میں بال برابر بھی خلل آجائے تو ہی روز قیامت ہوگا۔

(جاری ہے)

ہم عدل اور انصاف کی منظر کشی کرتے ہوئے صورتحال کا ایک ہی پہلو پیش نظر رکھتے ہیں ، یہی سبب ہے کہ حقیقت کی تصویر بھی ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے۔ بظاہر ہمیں یہی دکھائی دیتا ہے کہ رشوت کا طریقہ عدل کو کھا رہا ہے، پڑوسی کی شرارت، عدل کی دشمن ہے ، ڈاکو ڈکیتی میں لوگوں کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتا ہے۔ جو عدل کے خلاف ہے ، لوگ نا حق ایک دوسرے کے خلاف عدل و انصاف سے ہٹ کر سازشیں کرتے ہیں، قتل و غارت گری میں معصوم اور بے گناہ افراد جان سے جاتے ہیں، جو ظلم ہے عدل نہیں، دوست ، دوست کے خلاف آمادہ فساد ہو جاتا ہے اور عدل کے تقاضے پس پشت ڈال دیتا ہے۔
شاگردوں پر اساتذہ کے مظالم ہوتے ہیں،تعلیم کے بجائے تجارت کا عنصر نمایاں ہے ، جو عدل نہیں ، ظلم ہے، گھروں میں عدل موجود نہیں، شوہر بیوی سے ، بیوی شوہر سے، بیٹا ، بیٹی ، ماں ، باپ سے اور اولاد بزرگوں کے خلاف عدل کے بجائے ظلم کے راستے پر عمل پیرا ہے۔ امیر غریب پر سو طرح کے ظلم کرنے کو عدل و انصاف قرار دیتا ہے۔ حاکم محکوم کا حق مارنے پر آمادہ ہے اور چوہدری، زمیندار اور وڈیرہ غریب مزارع اور ہاری کی زندگی کو ذاتی جیل خانوں میں قید وبند کے ذریعے عدل فراہم کرنے پر عمل پیرا ہیں، یہ بھی نظام ہے مگر دنیا اسے اپنے طور پر جاری رکھے ہوئے ہے العدل اس کو پسند نہیں فرماتا۔

العدل کے پروردگار کا نظام عدل کتنا مثالی اور موثر ہے ، اس کا جائزہ لیجئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا عدل کے تحت کام کر رہی ہے، اسے العدل کی طاقت چلا رہی ہے، صرف کسی ایک گھر اور اس کے ماں باپ کی کوششوں کو دیکھا جائے تو یہ حقائق عدل سامنے آتے ہیں کہ ایک مرد نے شادی کی، اس کی بیوی نے ایک بچے کی دنیا میں آمد کی خوشخبری سنائی تو سب اہل خانہ اس کی خاطر داری اور فکری مندی میں لگ گے۔
ماں ہے کہ آنے والے بچے کو اپنا خون جگر پلا کر پال رہی ہے یعنی اسکی پیدائش کے وقت تک ماں مختلف بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار ہو جاتی ہے مگر وہ نظام عدل قدرت کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر کمر بستہ ہے ۔ گھر والے بچے ، بچی کے لیے کپڑے تیار کر رہے ہیں، دیگر سامان ضروری اکھٹا کیا جا رہا ہے پھر اللہ تعالیٰ بچے کی دنیا میں آمدکی تکمیل فرماتا ہے تو سب اس کی نازبرداریوں میں لگ جاتے ہیں کیونکہ یہ بھی تقاضہ عدل ہے۔
نظام عدل کا سلسلہ دیکھئے کہ بچہ بڑا ہوا،ا سے تعلیم کے لیے اسکول میں داخل کر دیا گیا ، یہ بھی اس کی بہتر زندگی کے لیے عدل کا ایک طریق ہے ، پھر جوان ہوا، اسے ملازمت کی ضرورت پیش آئی، وہ ملازم ہوا تو پھر اس نے اپنی ذمے داریوں کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا، دنیا میں زندگی گزارتے ہوئے دیگر افراد نے اسے عدل و انصاف کے ساتھ ترقی کا موقع دیا، نتیجتاََ اسے بھی اپنی عملی زندگی میں عدل کی روش کو اپنانا پڑے گا۔
آپ مشاہدہ کیجئے ہر طرف مصروفیت، گہما گہمی اور جدوجہد کا سلسلہ جاری و ساری ہے سب اپنی اپنی حد تک عدل و انصاف کرتے اور اپنے لیے بھی عدل و انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں۔عدل و انصاف کے بارے میں ایک فلسفیانہ طرز فکر بھی ہے، دانشوری سوچ کا محور عوام الناس سے ہٹ کر ہوتا ہے ، بعض اوقات وہ کچھ سوچتے ہیں اور عوام کچھ اور ۔ میں یہ عرض کروں گا کہ فلسفی ہی ایسی باتیں کرتے ہیں۔
فلسفی ہمیشہ سے خدا کے ہونے کی دلیل ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں گویا انہیں اس کے سوا کوئی کام ہی نہیں حالانکہ اتنی بڑی کائنات کے پیچیدہ نظام کو چلتا دیکھ کر انہیں با آسانی اس بات کا یقین و اعتبار ہو جانا چاہیے کہ کوئی ہے جو اس نظام کائنات کا چلا رہا ہے اور بایقین وہی اللہ سبحانہ ہے۔
یہ مت سمجھئے کہ دانشوروں سے احمقانہ باتو ں کا ہونا ناممکن ہے ڈارون کی اس عالمگیر تھیوری کو لے لیجئے کہ جس میں اس نے کہا تھا کہ انسان دراصل بندر کی ترقی یا فتہ شکل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔
ڈارون نے یہ بات تسلیم نہیں کی کہ تو یقینا اس کا انجام بھی افریقہ کہ بندوں کے ساتھ ہو گا۔ معروف فلسفی برٹرینڈرسل بھی خدا کو اس شرط پر ماننے کے لیے تیار ہوئے تھے کہ اس کی دلیل ملے، انہیں (نعوز باللہ) نہ خدا کے ہونے کی دلیل ملی۔نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہونے کی کوئی مثال ملی لہٰذا وہ نہ خدا کے قائل ہوئے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خدا کے بندے بھی رہے اور خود کو عیسائی یعنی حضرت عیسیٰ کا ماننے والا بھی قرار دیتے رہے یعنی وہ جس دلیل کے متلاشی تھے ، اس کے نمائندہ بھی بنے رہے یہ عدل خداوندی ہے۔
کتب تاریخ میں جو خرابی ہے وہ یہ ہے کہ ہر مورخ اپنی مرضی کے ماتحت حالات و واقعات قلمبند کرتا ہے، اس کی پسندنا پسند کا سلسلہ بھی ساتھ ہی چلتا رہتا ہے مثلاََ قدیم یونانی مورخ ہیروڈولٹس، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہمعصر تھا مگر اس نے اپنی تاریخ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا ۔ برصغیر میں بھی ایسی مثال ملا عبدالقادر بدایونی کی ہے، جنہوں نے حضرت مُجد دالف ثانی کا ذکر اپنی تاریخ میں نہیں کیا حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم عصر تھے۔
جس کی تاریخ اس کی مرضی ہمیشہ چلتی آئی ہے، مختلف تاریخ سے ہم اس بات کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے آئے ہیں۔ العدل پر اظہار خیال انسانوں کے بس کی بات نہیں اس بات کا اظہار کئے بغیر بھی بات نہیں بنتی کہ اس العادل نے دنیا میں بھی عدل قائم رکھا ہے مثلاََ مجرم کو اس کے جرم کے تحت سزا ملتی ہے ، خواہ اس کو سولی پر لٹکا نا پڑے تو یہ عدل بھی روا رکھا جاتا ہے۔
اللہ کی لاٹھی کو بے آواز کہا گیا ہے مگر یہ ظالموں کے سروں پر برستی رہتی ہے، یہ اور بات ہے کہ احساس کرنے کے باوجود اس کا اظہار نہ کریں مگر ضمیر کی خلش ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اللہ العدل نے یہ دنیا جیسی تخلیق فرمادی، اس سے بہتر کا تصور بھی محال ہے ، دنیا میں ظلم کے ساتھ عدل، شر کے ساتھ خیر، رات کے سات دن، ظلمت کے ساتھ نور، رونق کے ساتھ بے رونقی، زندگی کے ساتھ موت ، شادی کے ساتھ پیدائشاور غم کے ساتھ خوشیوں کا عدل ہی دنیا کی رونق کا ذریعہ ہے۔
اگر سارے لوگ صوفی ، شریف اور پرہیز گار ہو جائیں تو پھر گناہوں کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا اور رونق کائنات میں جو گہما گہمی کے عناصر ہیں وہ کیسے پروان چڑھیں گے؟۔حقیقت یہی ہے کہ دنیا کی رنگا رنگی اور رونق ظالموں، فسادیوں اور بدمعاشوں سے ہے، متقی، پرہیز گار اور عادلوں سے نہیں مگر شرکو خیر کی صورت دکھانے کے لیے ان کا وجود بھی ضروری تھا ،یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ عدل کے ساتھ ظلم کی پیدائش بھی ضروری ہے ، دنیا کی ترقی اور فروغ کے ساتھ اس کے اختتام کا بھی تذکرہ ہوتا رہنا چاہئے اس طرح صورتحال کو حداعتدال میں رکھنے کی سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu