Open Menu

Asmaul Husna-Al-Basir - Article No. 2004

Asmaul Husna-Al-Basir

اسماء الحسنیٰ - اَلْبَصِیْرُ - تحریر نمبر 2004

اسم البصیر کو جو شخص نماز فجر کی سنت اور فرض کے درمیان اعدادابجد کے مطابق302 بار پڑھے، قلب میں نورانیت کا ظہور ہو، بکثرت اس اسم کا ورد کرنے والا مشاہدات الہٰی کا نظارہ کرے، جو شخص اسم البصیر کو زعفران و گلاب سے لکھے اور دھو کر پئے اس کی نگاہ میں روشنی اور قلب میں نور پیدا ہو جائے۔

بدھ 20 جون 2018

پیرشاہ محمد قادری سرکار:
دیکھنے والا، دیکھنے کی صلاحیت بخشنے والا، اعداد ابجد 302،قوت بصارت میں ترقی، حصول مقام ، دنیا کی اہلیت۔
اسم البصیر کو جو شخص نماز فجر کی سنت اور فرض کے درمیان اعدادابجد کے مطابق302 بار پڑھے، قلب میں نورانیت کا ظہور ہو، بکثرت اس اسم کا ورد کرنے والا مشاہدات الہٰی کا نظارہ کرے، جو شخص اسم البصیر کو زعفران و گلاب سے لکھے اور دھو کر پئے اس کی نگاہ میں روشنی اور قلب میں نور پیدا ہو جائے۔

اس طرح اگر کوئی شخص مطالعہ سے پہلے پانچ بار یا بصیر پڑھ لے تو اس کی نظر کبھی کمزور نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اس اسم کو وقت اور جگہ کی پابندی کے ساتھ چالیس روز تک 3510بار پڑھے تو اس کے قلب و نظر میں نور پیدا ہو جائے۔ اگر ایسا شخص حکیم، ڈاکٹر، وغیرہ ہو تو مریض کے بدن کو ایکسرے کی طرح مشاہدہ کر سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اسم البصیر کے بارے میں ارشاد بار ی تعالیٰ ہے اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔

سورہٴ شوریٰ میں ہے۔
اللہ ہر شے کو دیکھنے والاہے ہم اللہ کی قدرت سمع وبصر(سننے دیکھنے کی قدرت) کا ادراک نہیں کر سکتے ۔
اسم البصیر پر علمی گفتگو کرتے ہوئے پہلا خیال ہی ذہن میں آتا ہے کہ ہم اپنے سامنے رکھی ہوئی اشیاء کو بفضلہ تعالیٰ ایک نظر میں دیکھ لیتے ہیں تو پھر اس رب کائنات کی نظر میں ہر شے کس طرح نہیں آئے گی، جس نے خود ہر شے کو تخلیق فرمایا؟ ہماری بصارت اس کی بھیک و بخشش ہے کیونکہ وہ ہر شے کی طرح بصارت کا بھی مالک ہے، بے حساب خزانوں کا بھی مالک ہے رحمتوں کا لٹانے والا ہے تو یقینا ہماری دیکھنے کی قوت اس کی بخشی ہوئی قدرت کا عطیہ و انعام ہے۔
یہ نعمت بخش کر اللہ نے ہمیں کا رآمد انسان بنا دیا ہے۔ جس کا ہم جس قدر بھی شکر کریں کم ہے ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی اکثر آتی رہتی ہے کہ ہر شخص کی دیکھنے میں صلاحیت ایک جیسی نہیں، کسی کی بینائی دور میں ٹھیک رہتی ہے قریب کی نظر کام نہیں کرتی کوئی میلوں دور کا نظارہ کر لیتا ہے تو کوئی اندھیرے میں بھی دیکھ لیتا ہے۔ بصارت میں یہ اختلاف کس نے پیدا کیا اور دیکھنے والوں کو مختلف انداز کی بصارت کا کیا فائدہ بخشا یہ تو اللہ البصیر ہی جانتا ہو گا مگر انسان کو اس کی قدرت سے فائدہ ہی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
نقصان ہم اپنے کرتوت سے اٹھاتے ہیں۔ پہلے انسان خیال کر لے تو خسارے سے بچ جائے کیونکہ انسان کو اللہ نے ویسے ہی خسارے میں کہا، اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔(آمین)
البصیر کی قدرت کاملہ پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ صرف قوت بصرو نظر کی ہی بات نہیں، خدا نے مختلف اقوام اور ممالک کے افراد آنکھیں بھی مختلف بنائی ہیں کسی کی دھنسی ہوئی ہیں کسی کی ابھری ہوئی کسی کی بڑی کسی چھوٹی کسی کی آنکھوں کا گوشہ تنگ ہے تو کسی کی آنکھ چشم آہو کہلاتی ہے کسی ملک کے لوگوں کی آنکھیں کالی ہیں، کسی کی بھوری ، نیلی بلی جیسی آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔
آنکھوں کے ہوتے ہوئے بصیرت کی دولت سے سرفراز کر دیتے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ بصارت سے محروم ہوتے ہوئے بصیرت کی دولت سے سرفراز کر دیتے جاتے ہیں۔ حشرات الارض کی تخلیق میں حیرت کا سمندر موجزن ہے مثلاََ سانپ کو زہر کی طاقت ملی ہے مگر سماعت سے محروم ہے مگر وہ اپنی آنکھوں سے ہی سننے کا کام لیتا ہے بچھو کو سننے کی طاقت ملی ہے جس کے ذریعے وہ دیکھنے کا کام بھی لیتا ہے۔
چھوٹا سا پرندہ ہدہد زمین کی تہوں میں موجود پانی دیکھ لیتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی اس خاصیت سے فائدہ اٹھایا تھا۔البصیر اپنی قدرت کا ملہ سے جسے چاہے بصارت اور بصیرت دونوں عطا فرمادے، دل کی آنکھ کے روشن ہونے کا نام بصیرت ہے، یہ واقعہ حیرت انگیز ہے کہ جب ایران میں مسلمان برسرپیکار تھے تو دشمن نے پہاڑ کے پیچھے سے آکر ان پر حملہ کا منصوبہ بنایا۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ نے اپنی بصیرت سے یہ حملہ دیکھ لیا اور اسی وقت پکارا یا ساریتہ الجبل انہوں نے سب کچھ دیکھ کر، اپنے ساتھیوں کو اپنی آواز سے خبر دار بھی کر دیا، اس بات کو قرآن حکیم میں حکمت قرار دیا گیا ہے ، صحابہ کرام  حضور اکرم ﷺ کے تربیت یافتہ تھے، ان کی سنت کی اتباع سے کمالات کے حامل ہو گئے۔
اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کرام، صوفیا کرام صوفیاء اور اولیا کرام کا تو ذکر ہی کیا ہر دور میں ایسے اللہ کے پسندیدہ بندے موجود ہوتے ہیں جن سے ماضی و مستقبل کے بارے میں جوپوچھا جائے تو بتا کر حیران کر دیتے ہیں۔اسم البصیر کے تذکرے میں بصارت کے ساتھ بصیرت کا ذکر بھی ناگزیر ہے ماہرین نفسیات بصیرت کا تعلق عقل فہم و فراست سے جوڑین مگر میرا استدلال یہی ہے کہ اس کا سوفیصد تعلق قلب سے ہے اور اس بات سے صوفیا کرام کے اس نظریے کی تصدیق کی ہے کہ عقل دفاغ میں نہیں، دل میں ہوتی ہے جدید تعلیمات سے آراستہ لوگوں کے لیے ولی کے بجائے فلسفی کا یہ قول پسندیدہ ہے کہ عقل دماغ میں ہوتی ہے اور دنیا چونکہ دماغ سے سوچتی ہے کہ اس لیے اس کے نتائج میں دماغی خلل کا بھر پور اظہار بھی ہوتا ہے۔
وہ عقل کی ٹامک ٹوئیاں مارتے عشق کرتا ہے اور شعراء اسے اکثر خلل دماغ قرار دیتے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قدرت کا ملہ کا مالک ہے اسم البصیر کی برکات سے وہ جسے چاہے بصارت اور بصیرت سے مال مال فرما دے، بزرگان دین دونوں کمالات کے مالک ہوتے آئے ہیں مگر وہ اس کا اظہار کرنے سے باز رہتے ہیں کیونکہ جن پر اللہ تعالیٰ کے اسرار کھلتے ہیں ان کی زبان بند ہو جاتی ہے وہ کسی پر کسی بات کا اظہار نہیں کرتے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی بات کو غیب میں ہی رکھنا چاہتا ہے کیونکہ فطرت خود بصیرت کو عام نہیں کرتی، خاص بندوں کو بخشتی ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu