Open Menu

Bargaah E Rabul Alameen Mein Haazri - Article No. 2257

Bargaah E Rabul Alameen Mein Haazri

بارگاہ رب العالمین میں حاضری - تحریر نمبر 2257

اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں ، ان میں سے بعض کا تعلق یا تو انسان کے بدن سے ہے جیسے نماز اور روزہ وغیرہ ، بعض کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے زکوٰة ، قربانی اور صدقات واجبہ وغیرہ جبکہ حج بیت اللہ ایسا خدائی حکم ہے

پیر 20 اگست 2018

مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں ، ان میں سے بعض کا تعلق یا تو انسان کے بدن سے ہے جیسے نماز اور روزہ وغیرہ ، بعض کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے زکوٰة ، قربانی اور صدقات واجبہ وغیرہ جبکہ حج بیت اللہ ایسا خدائی حکم ہے جس کا تعلق انسان کے بدن اور مال دونوں سے ہے۔حج عظیم الشان عبادت ہے ، احادیث مبارکہ میں اس کے فضائل و مناقب،آداب، شرائط، مناسک ، فرائض، واجبات ، سنن و مستحبات، ارکان اور طریقہ کار مذکور ہے۔


1:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ سے سوال کیا گیا کہ (دینِ اسلام میں)کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے)اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل ( زیادہ بہتر ہے؟)تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے بعدحج مبرور۔

(جاری ہے)

(صحیح بخاری، باب فضل الحج المبرور، حدیث نمبر1519)
یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعض احادیث میں افضل ترین عمل کبھی حج کو ، کبھی نماز،کبھی صدقہ ، کبھی جہاد کو اور کبھی والدین کی خدمت وغیرہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی تمام احادیث کا تعلق وقت ، اشخاص اور حالات کے ساتھ ہے۔حالات کے مطابق جس عمل کی زیادہ ضرورت ہو وہی زیادہ نفع مند اور فضیلت والا بن جاتا ہے۔
بعض کم علم لوگ کبھی کسی ایک عمل کی فضیلت کو بیان کرتے کرتے دوسرے عمل کی اہمیت کم کر دیتے ہیں ،اگر شریعت کے مزاج اور منشاءکو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو تمام الجھنیں دور اور جہالتیں کافور ہو جاتی ہیں۔
2:حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰکی رضا اور خوشنوی کیلئے حج کرے اور دوران سفر اپنے ساتھیوں سے بیہودہ باتیں کلام یا لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ کرے اور (کبیرہ) گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے)جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا۔
(صحیح بخاری،باب فضل الحج المبرور،حدیث نمبر1521)
3:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالی کے معزز مہمان ہیں؛ اگر وہ اللہ تعالی سے دعاءمانگیں تو اللہ تعالی ان کی دعاءقبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالی ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔(سنن ابن ماجہ، باب فضل دعاءالحاج،حدیث نمبر2892)
4:حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ حج کرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی بھی مغفرت فرمائے جن کے لیے حاجی لوگ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔
(شعب الایمان للبیہقی ، باب فضل الحج والعمرة ، حدیث نمبر3817)
نیت کی درستگی:اس عظیم عبادت کی ادائیگی کے وقت خالص اللہ کی رضاءاور خوشنودی کی نیت کریں اور اس کو محض اللہ کا خاص فضل اور احسان سمجھیں۔ خودنمائی، ریاءکاری ، دکھلاوا ، لوگوں کی واہ واہ لوٹنے اور خود کو ”حاجی صاحب“ کہلانے کا جذبہ خود پسندی ترک کر کے دل میں صرف اللہ کی وحدانیت کا جذبہ پیدا کریں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں بندگان دین تمام الجھنیں دور اور جہالتیں کافور کر کے خود کو اللہ پاک کی رضا کے سامنے جھکا دیتے ہیں۔ البتہ یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ بسا اوقات عبادات کی ادائیگی کے وقت خود بخودکسی امتیازی شان کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر ایسے خیالات دل میں آ رہے ہوں تو عبادات کو ہرگز نہ چھوڑیں بلکہ برابر ادا کرتے رہیں۔
یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں بلکہ نفس اور شیطان کی طرف سے یہ اللہ تعالیٰ کی عبادات سے دور کرنے کا ایک وسوسہ ہے، اسے دل میں جگہ نہ پانے دیں۔ جونہی یہ خیال آنے لگے فوراً اپنی توجہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی طرف سے ملنے والی بے شمار نعمتوں کی طرف کریں اور اپنے آپ پر غور کریں اور خود کو سمجھائیں کہ یہ سب کچھ مجھ پر محض اللہ کا فضل اور احسان ہے ۔
جس ذات نے مجھ گناہ گار پر اپنا کرم فرمایا۔
حج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں ، آئندہ پر نہ ٹالتے رہیں۔ ہمارے ہاں معاشرے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے اولاد کی شادیوں سے فراغت مل جائے پھر حج کریں گے ، والدین اپنی اولاد کی شادی کو اپنے اوپر فرض کا درجہ دے کر حج میں تاخیر کرتے ہیں یہ بالکل غلط سوچ اور اسلامی احکامات اور تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔
اس حوالے سے دوباتیں پیش نظر رہیں۔ ایک تو یہ کہ زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں نامعلوم آئندہ سال زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ؟ دوسرا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان میں طاقت کم ہوتی جاتی ہے ، بڑھاپا اور ضعف بڑھ جاتا ہے، مناسک حج کی ادائیگی کے لیے قوت ، ہمت اور چستی چاہیے۔ تاخیر کی صورت میں یہ چیزیں دھیرے دھیرے کمزور پڑ جاتی ہیں انسان میں تندرستی اور چستی کے بجائے سستی اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عبادات میں وہ لطف نہیں ملتا، جو جوانی کی عبادت میں ملتا ہے مکانات کی تعمیر اور اولاد کی شادی بیاہ وغیرہ جیسے عذر کی آڑ میں فریضہ حج میں تاخیر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
تمام عبادات بالخصوص فریضہ حج کی حقیقت پانے اور صحیح معنوں میں اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچائے ، خصوصاً لڑائی جھگڑا ، گالم گلوچ ،عیب جوئی اور عیب گوئی ، غیبت و تہمت ، بہتان طرازی ، چغل خوری ،دھوکہ دہی ، چوری چکاری ، سیلفیاں لینا ، تصویر سازی ،بے پردگی ، بد نظری ،ممنوعات احرام اور مفسدات حج سے خود کو بچائے عموماً دیکھا جاتا ہے کہ حرم کعبہ اور مسجد نبوی شریف میں بیٹھ کر بہت سے دین دار بھی غیبت جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
اس سے بچنے کا سب سے آسان حل ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریم میں خود کو مشغول کرنا ہے ۔ ہر سال دنیا بھر سے مسلمان حج بیت اللہ میں حاضری دے کر خدائے بزگ و برتر کے سامنے سر بسجود ہوتے ہیں ،ساتھ ہی دین اسلام کی سربلندی کا اقرار کرنے والوں کیلئے یہ ادائیگی ءفریضہ کی دعوت بھی ہے۔انسان کی زندگی میں قسمت سے ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں ،حرمین شریفین بے حد مقدس مقامات ہیں ، جہاں عبادات کا ثواب عام جگہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ عازمین حج کیلئے ضروری ہے کی وہ رونق کا سامان بننے کے بجائے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں اور کثرت میں طواف کریں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu