Open Menu

Biwiyoon K Huqooq - Article No. 918

Biwiyoon K Huqooq

”بیویوں کے حقوق“ - تحریر نمبر 918

اللہ میاں نے جتنے انسان مرد یا عورت پیدا کئے ہیں‘ ان سب کی غالب اکثریت میں کوئی نہ کوئی امتیازی خوبی اور کوئی نہ کوئی نقص ہوگا۔ پیغمبروں اور رسولوں کے سوا کوئی انسان کامل نہیں ہوتا۔ اگر بیوی اپنے مرد کے کئی نقائص کے باوجود اس سے نباہ رکھتی ہے

جمعہ 17 اپریل 2015

اعجاز احمد ڈنگہ
حضرت جابر سے روایت ہے کہ (حجتہ الوداع میں یوم عرفہ کے خطبہ میں رسول اللہ نے یہ ہدایت بھی فرمائی لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لئے حلال ہوئی ہیں‘ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا ”گھر میں آنا اور تمہارے بستروں پر بیٹھنا “ تمہیں ناپسند ہو ،وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں۔
پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو (تنبیہہ) کے طورپر تم سزا دے سکتے ہو جو زیادہ سخت نہ ہو اور تمہارے ذمہ مناسب طریقے سے ان کے کھانے‘ کپڑے (وغیرہ ضروریات) کا بندوبست کرنا ہے۔ (صحیح مسلم۔)
اس حدیث کا پس منظر سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام سے پہلے عربوں کی معاشرت میں یہ رواج عام تھا کہ رشتے داروں کے مرد ایک دوسرے کے گھروں میں آزادانہ آتے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

یہاں نبی پاک نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی مرد کا آنا شوہر کو ناگوار ہو تو بیوی اس مرد کو گھر میں نہ آنے دے‘ لیکن اگر کبھی کوئی عورت غلطی کر بیٹھے تو مرد اسے کم سے کم سزا دے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ حجتہ الوداع کا موقع ایک خاص موقع تھا۔ آپ کو اپنے رب کی طرف سے اطلاع دی جا چکی تھی کہ آپ یہ فانی دنیا چھوڑ کر عنقریب دائمی زندگی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
آپ نے اس موقع پر اپنے ماننے والوں کو جو ہدایات دیں‘ ان کی خاص اہمیت ہے۔ اس موقع پر بیویوں کے حقوق اور ان سے حْسن سلوک کی ہدایت دینے کا مطلب یہی ہے کہ اسلامی معاشرت میں بیویوں سے اچھا سلوک کرنا انتہائی ضروری ہے اور اسی رویہ سے نہ صرف گھروں بلکہ سارے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہیں کرتا یا یہ کہ اس کو نفرت نہیں کرنی چاہئے) اگر اس میں کوئی ایک عادت ناپسندیدہ ہوگی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔

اللہ میاں نے جتنے انسان مرد یا عورت پیدا کئے ہیں‘ ان سب کی غالب اکثریت میں کوئی نہ کوئی امتیازی خوبی اور کوئی نہ کوئی نقص ہوگا۔ پیغمبروں اور رسولوں کے سوا کوئی انسان کامل نہیں ہوتا۔ اگر بیوی اپنے مرد کے کئی نقائص کے باوجود اس سے نباہ رکھتی ہے اور اپنے گھر کو آباد رکھتی ہے تو مر د کا بھی فرض ہے کہ اپنی عورت کی خامیوں کو نظرانداز کر دے اور اس کی خوبیوں پر نظر رکھے۔
اگر مرد وسیع النظری کا مظاہرہ کریں تو ان کا گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔ قرآن پاک میں سورة النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور بیویوں کے ساتھ مناسب و معقول طریقے سے گزارا کرو۔ اگر تمہیں ناپسند بھی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اس میں بہت خیر اور خوبی رکھی ہو۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق‘ برتاؤ (سب کے ساتھ) بہت اچھا ہو (اور خاص کر) بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت کا ہو۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا مسلمانوں میں زیادہ کامل الایمان وہ ہیں جن کے اخلاق بہتر ہیں اور (واقعہ میں اللہ کی نگاہ میں) تم میں اچھے اور خیر کے زیادہ حامل وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں زیادہ اچھے ہیں۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو (اس کے ساتھ فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کیلئے بہت اچھا ہوں۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری کچھ سہیلیاں تھیں تو جب آنحضرت گھر میں تشریف لاتے تو وہ گھر کے اندر جا چھپتیں تو آپ ان کو میرے پاس بھجوا دیتے۔ چنانچہ وہ آکر پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں حضور کے ساتھ تو پیدل دوڑ میں ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی۔
اس کے بعد جب (فربہی کے سبب) میراجسم بھاری ہو گیا تو ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے اور آگے نکل گئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہو گیا۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے خدا کی قسم میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ حبشی لوگ مسجد میں نیزہ بازی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ مجھے ان کا کھیل دکھانے کیلئے میرے لئے اپنی چادر کا پردہ کرکے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے کاندھے سے اور کان کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی۔ آپ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ میں خود ہی لوٹ آئی۔ اندازہ کرو کہ ایک نوعمر اور کھیل تماشہ سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی کا کیا مقام تھا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu