Open Menu

Buzurgaan Ke Uras Kyun Aur Kaisay Manayeen - Article No. 2549

Buzurgaan Ke Uras Kyun Aur Kaisay Manayeen

بزرگان کے عرس کیوں اور کیسے منائیں؟ - تحریر نمبر 2549

تمام سلاسل طریقت کا شروع ہی سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ جس تاریخ پر کسی بزرگ کا وصال ہوا اُس تاریخ پر اُس کے یوم وصال کو عرس کے عنوان سے عزت و احترام اور آداب شرع کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناتے ہیں۔ اگر

پیر 29 اکتوبر 2018

قاضی مظفر اقبال رضوی تمام سلاسل طریقت کا شروع ہی سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ جس تاریخ پر کسی بزرگ کا وصال ہوا اُس تاریخ پر اُس کے یوم وصال کو عرس کے عنوان سے عزت و احترام اور آداب شرع کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناتے ہیں۔ اگر بعض عاقبت نا اندیش کچھ خرافات کو عرس کا حصہ بنا لیتے ہیں تو اس کا ان بزرگوں کے عرس اور انکی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
ایسی خرافات سے نہ صرف عرس کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ معاشرہ میں بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے۔ عرس عربی کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی خوشی کے ہیں۔ پارسا اور متقی لوگوںکو اللہ تعالیٰ حیات طیبہ عطا فرماتا ہے۔ جب ان نفوس قدسیہ کا دنیا سے سدھارنے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کو نفوس قدسیہ میں شامل فرما کر انہیں نفس مطمئنہ سے نواز دیتا ہے پھر جب وہ دنیا کی زندگی پوری کرکے اپنے رب کے حضور حاضر ہوناچاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُسے یہ مژدہ جانفزا سنانے آتے ہیں اے نفس مطمئنہ تو اللہ کی بارگاہ میں راضی او رخوشی سے حاضر ہوجا اور جب اُسے اسکی آخری آرامگاہ میں لٹادیاجاتا ہے تو امتحان لینے والے فرشتے قبر میں اُس سے تین سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتا ہے کہ میرا رب اللہ جل جلالہ ہے۔

(جاری ہے)

تیرا دین کونسا ہے؟ تو وہ کہتا ہے میر ا دین‘ دین اسلام ہے اور تیسرا سوال حضورؐ کا چہرہ مبارک دکھا کر پوچھتا ہے کہ اس شخصیت کے بارے میں تو دنیا میں کیا کہاکرتا تھا؟ وہ حضورؐ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہی وارفتگی کے عالم میں پکار اٹھتا ہے ہذا نبیّنا محمد رسولؐ اللہ یہ تو میرے نبی جناب محمد رسولؐ اللہ ہیں میں تو یہاںمرکے پہنچا ہوں اس دلربا کے واسطے۔
فرشتے اُس کے صحیح جوابات سن کر اُسے کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیںاور کہتے ہیں’ نم کنومتہ العروس ‘ ایسے سو جا جیسے پہلی رات کی دلہن۔ اسی عروس سے عرس بنا ہے چونکہ قبر میں اسکی کامیابی پر اُسے خوشی کی نوید سنائی جاتی ہے اس مناسبت سے بزرگان دین کے یوم وصال کو عرس سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُس اللہ والے کی کامیابی پر ہم اُس کا عرس مناتے ہیں۔
اس سلسلہ میں حضورؐ کاعمل مبارک ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ آپؐ ہر سال جنت البقیع کے مدفونین کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے اور اُن کو سلام کہتے ان کیلئے دعائے مغفرت فرماتے تھے۔ اس عمل کے پیش نظر ان بزرگان دین کے مزارت پر سلام دعا ،نوافل و درود شریف کی کثرت سے ایصال ثواب کرنا چاہئے اس موقع پر مواعظ حسنہ و محافل قرآت و نعت سے عقیدت مندوں میں دینی و مذہبی کیفیت اور جوش ولولہ پیدا کرنا چاہئے تاکہ حاضرین اپنی زندگیوں کو اچھے اعمال سے سنوار کر آخروی نجات کا سامان تیار کر سکیں۔
عرس کے با سعادت ایام کو ناچ گانے‘ ڈھول باجے اور مکرو ہ تفریح کے ا فعال سے پامال نہیں کرنا چاہئے۔ آفتاب ولائت حضرت علی ہجویری ؒؒ شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں بڑی شدّو مد سے فرماتے ہیں۔کہ انسان کی کامیابی شریعت کی تابع فرمانی میں ہے اور ہلاکت شریعت کی نافرمانی میں ہے۔اس بار جب ہم مخدوم الاولیا کا عرس منا رہے ہیں، امر واقعہ یہی ہے کہ جو بھی یہاں ادب و احترام اور شریعت کی پاسداری کرتا ہوا حاضر ہوا اس نے روحانیت سے وافر حصہ پایا۔ لہٰذا مزارداتا گنج بخش سمیت جہاں کہیں بھی اس کے زیر انتظام روحانی مرکزہیں محکمہ اوقاف کو قانونی طور پر عرس کے تقدس کو برقرار رکھناچاہئے اور خلافِ شرع قبیح حرکات کا ارتکاب کرنیوالوںکی گوشمالی ہونی چاہئے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu