Open Menu

Damaad Rasool Hazrat Usman - Article No. 2324

Damaad Rasool  Hazrat Usman

داماد رسول ﷺ حضرت عثمان - تحریر نمبر 2324

ہجرت نبویؐ سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف۔ گویا پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب رسول اکرم ؐ سے مل جاتا ہے۔

منگل 4 ستمبر 2018

مولانا محمد الیاس گھمن
آپ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبویؐ سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف۔ گویا پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب رسول اکرم ؐ سے مل جاتا ہے۔ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف۔

سیدنا عثمان ؓ کی نانی محترمہ بیضاء ام الحکیم؛ رسول اللہ ؐ کے والد حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن تھیں اور رسول اللہ ؐ کی سگی پھوپھی تھیں۔ اس نسبت سے آپ کے بھانجے ہوئے۔ سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں نہ کبھی زنا کیا ، نہ شراب پی، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کبھی چوری کی ، نہ کبھی مسلمان ہونے بعد دین سے پھرا، نہ دین بدلنے کی تمنا کی ، نہ ہی گانا بجایا۔

(جاری ہے)

سیدنا عثمانؓ بہت خوب صورت تھے: گندمی رنگ ، قد معتدل ، گھنی داڑھی ، مضبوط جسم ، بارعب اور شخصیت کو نمایاں کرنے والا چہرہ تھا۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓفرماتی ہیں کہ جب آپ ؐ نے حضرت عثمان کا نکاح اپنی بیٹی سیدہ ام کلثوم سے فرمایا تو ان سے کہا کہ بیٹی!آپ کے شوہر نامدار(سیدنا عثمان ) تمہارے دادا حضرت ابراہیم اور تمہارے باپ محمدؐ سے بہت ملتے جلتے ہیں۔
علامہ سیوطی ؒ نے بحوالہ ابن عساکر ابو ثور فہمی ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمان ؓنے ایامِ محاصرہ کے دوران مجھ سے کہا : میں اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھے نمبر پر ہوں۔
اخلاق و عادات :
بارگاہ نبوی میں :
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت عثمان ؓ کے بارے میں فرمایا : میں اس شخص(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ )کا حیاء کرتا ہوں جس کا فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐنے فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ باحیاء عثمانؓ ہیں۔انکساری و تواضع کا یہ عالم ہے کہ تین براعظموں کے فاتح ہیں لیکن جب ایک غلام نے آپ کی دعوت کی تو آپ اسے خوشی خوشی قبول فرما لیا چنانچہ صحیح بخاری باب اجابۃ الحاکم الدعوۃ میں روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے ایک غلام کی دعوت کو قبول فرمایا۔
زہد و تقویٰ کی بلندی ملاحظہ فرمائیے ابو ثور تمیمی ؓ کی روایت ہے حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی لہو لعب کی تمنا نہ کی۔ آپ نے مسلسل دس حج ادا فرمائے ، آپ مناسک حج کے بہت بڑے عالم تھے ، امہات المومنین کو بھی آپ نے حج کرایا۔آپ نے سیدناحسین ؓ کو بھی حج کرایا۔اس موقع پر آپ لوگوں سے عمال کی شکایات دریافت فرماتے اور ان کا ازالہ فرماتے۔

صلح حدیبیہ اوربیعت ِرضوان :
6 ہجری میں رسول پاک ؐ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ہمراہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور کعبۃ اللہ کا طواف کیا اس کے بعد کسی نے سر کے بال منڈوائے اور کسی نے کتروائے۔ آپ نے یہ خواب صحابہ کو سنایا سب نہایت خوش ہوئے۔ اس کے بعد آپ ؐ اسی سال ذو القعدہ کے مہینے میں عمرہ کے ارادہ سے مکہ معظمہ کا سفر شروع کیا ، صحیح روایات کی بنیاد پر آپ کے ہمراہ جماعت صحابہ کرامؓ کی تعداد 1400 اور 1500 کے درمیان ہے۔
مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے احرام باندھا ، پھر آگے حدیبیہ تک پہنچے ، کفار مکہ نے مزاحمت کی کہ ہم مکہ نہیں آنے دیں گے۔ نبی پاک ؐ نے صحابہ کرام کے مشورے سے اپنا سفیر سیدنا عثمان ؓ کو بنا کر بھیجا کہ آپ جا کر مکہ والوں کو سمجھائیں کہ ہم لڑنے کی نیت سے نہیں آئے بلکہ کعبہ کا طواف کر کے واپس چلے جائیں گے۔ سیدنا عثمانؓ مکہ پہنچے اور ان کو یہ بات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کفار مکہ نے ضدکی وجہ سے اسے قبول کرنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔
جب سیدنا عثمان ؓمکہ جانے لگے تو کسی صحابی نے یہ بات کہہ دی کہ عثمانؓ کی قسمت اچھی ہے وہ مکہ جا کر کعبہ کا طواف کریں گے مگر ہمیں کفار اجازت دیں یا نہ دیں۔ یہ بات رسول اللہ ؐ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: عثمان کے متعلق ہمیں یہ وہم بھی نہیں کہ وہ ہمارے بغیر کعبہ کا طواف کر لیں گے۔ ادھر دوسری طرف جب سیدنا عثمان ؐ مکہ پہنچے تو سردار مکہ ابو سفیان نے کہا : عثمان ؓ اگر تم چاہو تو میں تمہیں طواف کی اجازت دے سکتا ہوں لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ تمہارے نبیؐ کو طواف کی اجازت نہیں دیں گے۔
سیدنا عثمان ؓ نے ابو سفیان کو جواب دیا : رسول اللہ ؐکے بغیر میں ہرگز طواف نہیں کروں گا۔ آپ کے اس جواب پر ابو سفیان نے سیدنا عثمانؓ اور آپ کے ہمراہ دس صحابہ کرام کو قید کر دیا۔ کسی نے یہ غلط خبر اڑا دی کہ کفار مکہ نے سیدنا عثمانؓ اور ان کے ہمراہ دس صحابہ کرامؓ کو شہید کر دیا ہے۔ اس خبر سے رسول اللہ ؐ کو شدید صدمہ پہنچا ، آپ اٹھے اور میدان حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے تشریف لے گئے۔
آپؐ نے صحابہ کرام ؓکو بلایا اور سیدنا عثمان ؓ کا بدلہ لینے کے لیے موت کی بیعت کی۔ جب آپ بیعت لے رہے تھے تو آپ ؐنے اپنے ایک ہاتھ کو سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں۔لیکن بعد میں پتہ چلا کہ شہادت عثمان والی خبر سچی نہ تھی۔آپؐ نے حکم دیا کہ کفار کے کچھ لوگوں کو قید کر لو ، مسلمانوں نے کفار کے چند لوگوں کو قید کرلیا۔
تب کافروں نے مجبور ہو کر سیدنا عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا اور اس کے بدلے اپنے لوگوں کو رہا کروایا۔
خلافت عثمانی کے نمایاں کارنامے:
سیدنا عثمان ؓ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی فراست ، سیاسی شعوراور حکمت عملیوں کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی۔ اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ روشن ہوا۔
آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو نماز عصر پڑھائی۔ آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔اس کے ساتھ ساتھ طرابلس ، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے۔چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنائیں۔ مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی دس میں چوڑی چراگاہ قائم کی ، مدینہ سے بیس میل دور مقام نقیع پر ، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں اور چشمے بنوائے۔
آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے۔اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہ کے اصرار پر سیدنا عثمان ؓنے رکھی۔ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے ،اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں الگ الگ تقسیم فرمایا : سول ، فوجی ، عدالتی ، مالی اور مذہبی محکمے جدا جدا تھے۔
حضرت عثمان لوگوں کی بے جا تنقید اور عیب گوئی کی پروا کئے بغیر روزانہ لوگوں میں مال تقسیم فرماتے ، عطیات عطا فرماتے ،کھانے پینے کی اشیاء تقسیم فرماتے ، یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا۔ اس کے علاوہ امن وخوشحالی کے عوام سے قرب و ربط ،مظلوم کی نصرت و حمایت ، فوجی چھاونیوں اوراسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد نبوی کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا ، خون وخرابہ سے دارالخلافت کو بچائے رکھناوغیرہ۔
سیدنا عثمان ؓکے دور ِخلافت میں بعض وہ ممالک جو سیدنا عمرؓ کے زمانہ خلافت میں فتح ہو چکے تھے وہاںبغاوت پر قابو پاکر ان کو دوبارہ فتح کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر آذربائیجان ، آرمینیہ ، اسکندریہ کا طبری اور البدایہ والنہایہ میں تفصیلاً ذکر ملتا ہے۔ بلاد روم اور رومی قلعے ،بلاد مغرب، طرابلس، انطاکیہ ، طرطوس ،شمشاط ، ملطیہ ،افریقہ ، سوڈان ، ماوراء النہر ،ایشائے کوچک ، ایران ، ترکستان ، اندلس ، اصطخر، قنسرین ، قبرص ،فارس ، سجستان ، خراسان ، مکران ، طبرستان ، قہسستان ، ابر شہر ، طوس ، بیورو ، حمران ، سرخس ، بیہق ، مرو، طالقان ، مروروذ ، فاریاب ، طخارستان، جوزجان ، بلخ ، ہرات ، باذغیس ،مروین وغیر کے ہر علاقے کی تفصیل تاریخ کی کتب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
گویا براعظم ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح کیے گئے۔ فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کر کے روئے زمین کا بیشتر حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں لایا گیا۔
سیدنا عثمان ؓنے سرحدوں پر موجود اسلامی افواج کو یہ ہدایات بھیجیں کہ تم لوگ مسلمانوں کی حمایت اور ان کی طرف سے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہو۔تمہارے لیے حضرت عمر ؓنے جو قوانین مقرر فرمائے تھے وہ ہماری مشاورت سے بنائے تھے۔
اس لیے مجھ تک یہ خبر نہیں پہنچنی چاہیے کہ تم نے ان قوانین میں رد و بدل سے کام لیا ہے۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے کیسے بن کے رہنا ہے ؟اور جو ذمہ داری مجھ پر میں بھی اس کی ادائیگی کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ 18 ذوالحج بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان ؓ کو شہید کر دیا گیا۔آپ نے کل 82سال کی عمر پائی۔حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی۔ اللھم اجمع امۃ محمد۔ اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما۔

Browse More Islamic Articles In Urdu