Open Menu

Fareeza Hajj Ke Baad Hajjaj Karaam Ke Faraiz - Article No. 2440

Fareeza Hajj Ke Baad Hajjaj Karaam Ke Faraiz

فریضہ حج کے بعد حجاج کرام کے فرائض - تحریر نمبر 2440

حج میں توحید اور اطاعت خالقِ کائنات ،اظہارِ عبدیت اور مقصودِ اطاعت رب ہو یدا ہوتی ہے

منگل 2 اکتوبر 2018

بابو عمران قریشی
صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر حج ایک فریضہ ہے جس کی ادائیگی ان کے ذمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ حج کی ا دا ئیگی سے ایک تو اُن کو فریضہ حج سے فارغ الذمہ کر دیا جاتا ہے دوسرایہ کہ اُن کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں اور تیسرا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کو جنت کی خوشخبری بھی دی ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے محض للہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور لغوکلام اور فسق یعنی ہر قسم کے گناہ کے کاموں سے محفوظ رہا تو وہ حج سے ایسا پاک ہو کر واپس آتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا ۔

حج میں توحید اور اطاعت خالقِ کائنات ،اظہارِ عبدیت اور مقصودِ اطاعت رب ایست ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

حج کا سفر عام سفر سے مختلف ہوتا ہے اس میں نہ صرف دینی بلکہ دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ اقوام عالم کے اخلاق وعادات کا پہ چلتا ہے اور حج تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق کے لئے بہتر ین ذریعہ بھی ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ حرم کی ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر اور ہر عبادت کا ثواب بھی لاکھوں کے برابر ملتاہے۔

حج ملتِ اسلامیہ کا ایسا عظیم اجتماع ہے جس کی مثال دنیا کے کسی حصے میں نہیں ملتی۔پوری دنیا سے لاکھوں فرز ندانِ تو حید مکہ معظمہ جا کر ہر سال حج کی سعادت سے بہر ور ہوتے ہیں جن میں پاکستان حجاج کی کثیر تعداد بھی شامل ہوتی ہے ۔خوش نصیب حجاج اس سال بھی فریضہ حج کی ادائیگی اور روضہ اطہر کی زیارت کے بعد بخریت اپنے گھروں میں پہنچ چکے ہیں جبکہ بعض حجاج کے مقدر میں ارضِ مقدس کی مٹی لکھی تھی وہ حج کے دوران وفات پا گئے ۔
لاکھوں فرزندانِ تو حید نے حرمین شریفین میں اُن کی نمازِ جنازہ پڑھی اور صحابہ کرام راضی اللہ عنہ اور صالحین کے پہلو ؤں میں مدفون ہوئے ۔ایسے خوش نصیب مر حومین کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے نکلے اور راستہ میں فوت ہو جائے تو اس کی(عدالت قیامت میں )پیشی ہوگی نہ حساب کتاب ہو گا اور اُس کو کہہ دیا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جا۔

حضرت بصری نے فرمایا شخص رمضان المبارک ،جہاد یا حج کے بعدفوت ہوا تو وہ شہید ہو کر مرا ۔یہ تینوں حالتیں ایسی ہیں کہ ان میں وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہو گا ۔ایک حاجی ضیوف الرحمان یعنی اللہ کا مہمان ہوتا ہے ۔ایک عام مہمان کی بھی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے جبکہ اللہ کا مہمان بننا تو ایک ایسی سعادت ہے جس کا بیان کرنا ہی نا ممکن ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے مہمانوں کے لئے خصوصی دعا فرماتے ہوئے فرمایا یااللہ تو حاجی کی بھی مغفرت فرما اور حاجی جس کے لئے مغفرت کی دعا کرے اُس کی بھی مغفرب فرما ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسرا فرمان ہے کہ حاجی کی دعا رد نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کو لوٹے ۔ایک روایت میں ہے کہ جب کسی حاجی سے ملاقات ہو تو اُسکو سلام کرو اور اُس سے مصافحہ کر و اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اُس سے اپنے لئے دعا ئے مغفرت کی درخواست کرو ۔کیونکہ وہ بخشا ہوا ہے یعنی اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو کر آیا ہے ۔
مذکورہ اقوال اور فرمودات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ایک حاجی کی نہ صرف قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے بلکہ اُس کی ذمہ داریاں بھی پہلے کی نسبت بڑھ جاتی ہیں ۔جس طرح کہ کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کی دھلی ہوئی صاف شفاف چادر پر کوئی دھبہ لگے اسی طرح حاجی کو بھی یہ پسند نہیں ہوتا کہ حج برور یا حج مقبول کے بعد خود کو کسی گناہ میں ملوث کرے ۔
حسن بصری فرماتے ہیں کہ حج مبرور یہ ہے کہ حج کرنے کے بعد دنیا سے بے تو جہی اور آخرت کی طرف رغبت ہو ۔حج مقبول ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اُن خامیوں کی اصلاح ہو جو پہلے موجود تھیں ۔دنیاوی معاملات اور دلچسپیوں سے رغبت کم اور آخرت کی فکر زیادہ ہو۔ اعمال اور اخلاق کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔حج ایک ایسا فریضہ ہے کہ جس کے ادا کرنے کے دوران یا اس کے بعد ایک حاجی کے اندر کوئی نمایاں تبدیلی ضرور ہونی چاہئیے۔
اُس کا دامن گناہوں سے آلودہ نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کو تو بہ استغفار کرکے راضی کر چکنے کے بعد اُن گناہوں کا اعادہ نہ کیا جائے ۔دینی اور دنیوی معاملات میں ایک مثالی کردار ادا کرکے عام مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ بنے ۔ہاں اگر کوئی شخص حج اور سفرِ حج کے بارے میں کچھ دریافت کرے تو اُس کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے تفصیلا بتانا کوئی بری بات نہیں مگر پوچھے بغیر اور بلا ضرورت ہر ایک سے تذکرہ کرنا فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہو گا ۔
یعنی ثواب میں اتنی ہی کمی ہوتی جائے گی ۔ایسے لوگوں کے سامنے جن پر حج فرض ہو چکا ہو اور اس کی ادائیگی میں کوتا ہی کررہے ہوں وہاں کے محاسن اور فضائل بیان کرنا تا کہ ان کے دل میں شوق پیدا ہو نہ صرف جائز ہے بلکہ بہت ضروری بھی ہے۔اور ایسا کرنے والاا جرو ثواب کا حقدار بھی ہوگا ۔حج میں تکالیف بھی ٹھانی ہیں ،بعض حجاج اکرام الف سے لے کر ی تک تفصیل سے اپنی تکالیف اور پریشانیوں کا خوب مرچ مصالحہ لگا کر تذکرہ کرنے میں خوبی تصور کرتے ہیں ۔
مقامی لوگوں اور دوسرے ممالک کے حاجیوں کے بارے میں شکایات کو خوب بڑھا چڑھا کربیان کرتے ہیں ۔ڈرائیوروں ،سپاہیوں ،محافظوں اور دوکانداروں کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔گرمی کی شدت ،طویل انتظار اور روکھا پن وغیرہ کا ذکرہ کئی کئی گھنٹے کرتے رہے ہیں ۔اس کا ایک نقصان تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی نافرمانی ہے ارضِ مقدس کے لوگوں کو حقارت سے نہ دیکھو ۔
دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے عازمینِ حج جو اگلے سال حج کی سعادت حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں وہ ڈر کر ارادہ تبدیل کرلیتے ہیں ۔اور سارا گناہ ڈرانے والے کے کندھوں پر پڑتا ہے ۔ایسے لوگ قرآن پاک کے احکامات کے مطابق اس زمر ے بھی آجاتے ہیں ۔ترجمہ روکتے ہیں اللہ کے راستے اور مسجد الحرام سے ۔البتہ اگر کوئی حاجی ذمہ داری کے ساتھ ایسے ذمہ دار افراد مثلاََ وزارت مذہبی امور کے افسران کے ساتھ تکالیف کے ازالے کے لئے زبانی یا لکھ کر تذکرہ کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ آئندہ کے لئے ان کی اصلاح ہو جائے تو ایسی صورت میں ذکر کرنے یا بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بہتری ہے ۔
حضور سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مناسکِ حج وغیرہ مجھ سے سیکھو ۔پاکستانی عازمینِ حج کی اکثریت جذبہ اور عقیدت سے تو لبریر ہو تی ہے مگر مناسکِ حج نہ سیکھنے کے باعث اُن سے دوران حج عمرہ بہت سی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ۔حجاج اکرام کو چاہئیے کہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھنے والوں کی نہ صرف مناسکِ حج وعمرہ کے سلسلہ میں رہنمائی کریں بلکہ موسمی حالات وانتظامی ا ُمور سے بھی اُن کو باخبر کریں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ خواتین حقیقی محرموں کی بجائے فرضی محرموں کے ساتھ چلی جاتی ہیں جس کی وجہ سے پریشانیاں اُٹھانی پڑتی ہیں اور عمر رسیدہ حضرات بھی حج کی تکالیف برداشت نہیں کرسکتے۔
جس کی وجہ سے ان کے بیشتر ارکانِ حج ادا نہیں ہو سکتے ۔حجاج اکرام کو چاہئیے کہ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں صحیح صحیح رہنمائی کریں اور واضح کر دیں کہ حج کے افعال مشقت طلب ہیں جن کے لئے صحت مند ہونا بے حد ضروری ہے ۔
حج کے حکم میں اللہ رب العزت کی اتنی حکمتیں ہیں کہ ان تک ہماری عقول کی رسائی ممکن نہیں ۔جتنا غوروفکر کیا جائے اس کے فوائد روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ اصل مقصد اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق کا بڑھانا ہے اور دنیا اور اس کی محبت سے بے رغبتی پیدا کرنا ہے ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu