Open Menu

Hazrat Imam Zain Alaabdin - Article No. 2493

Hazrat Imam Zain Alaabdin

حضرت امام زین العابدین (حصہ اول) - تحریر نمبر 2493

آپ کے خطبات نے یزید یت کا چہرہ بے نقاب کیا وارثِ کربلا سید السار جدین

بدھ 17 اکتوبر 2018

آغا سید حامد علی شاہ موسوی
خانوادہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ہستی اور فصحائے عالم کے سردار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے امام زین العابدین رحمتہ اللہ (المعروف سید سجادو عابد بیمار)کے ذکر کے بغیر کر بلا کی داستان نا مکمل ہے ۔بعداز شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ امام زین العابدین رحمتہ اللہ نے اپنی عمہ محترمہ نواسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خاندان رسالت کو سنبھالا اور قید و بندکی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود جس بے مثال جرات اور لازوال عزم وثبات کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کی تحفظ دین وشریعت کی تحریک کو سنبھالا دیا وہ تاریخ انسانیت کا نا قابل فراموش باب ہے ۔


امام زین العابدین رحمتہ اللہ نے اسیران کر بلا کے ہمراہ ظالمین کے خلاف موثر ترین پرامن احتجاج کی بنیاد رکھ کر ہر عہد کے مظلو مین کو منزل کا راستہ بتلا دیا ۔

(جاری ہے)

اپنی دعاؤں اور مناجات کو جبر وتشدد کے سیاہ ترین دور میں تبلیغ کا ذریعہ بنایا ،کو فہ وشام میں اپنے خطبات کے ذریعے یزید یت کا گھناؤ نا چہرہ بے نقاب کیا اور مقصد شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کو اس انداز میں اجا گر کیا کہ ظلم وجبر کے ایوان میں زلزلہ طاری ہو گیا۔


اگر امام حسین رضی اللہ عنہ کے بیمار فرزند امام زین العابدین رحمتہ اللہ اور نواسیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینت بنت علی رضی اللہ عنہ کی جدوجہد نہ ہوتی تو یزید اپنی طاقت اور پروپیگنڈے سے مقصد شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ۔
نواسہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرکے یزید فتح کے نشے میں چورتھا اسیلئے اس نے خاندان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہو بیٹیوں کو ننگے سر کو فہ وشام کے بازاروں اور درباروں میں پھرا یا ،اولاد رسول کوبازاروں میں پھرا کر یزید اپنی طاقت اور جاہ وجلا کا مظاہرہ کرنا چاہ رہا تھا لیکن امام زین العابدین رحمتہ اللہ اور سید زینب بنت علی رضی اللہ عنہ کے خطبات کی فصاحت بلاغت اور اثر آفرینی نے طاقت کے نشے میں مخموریزید یت کو ز میں بوس کر دیا۔

جب حضرت امام زین العابدین رحمتہ اللہ خاندانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی باعصمت خواتین کے ہمراہ دربارِ یزید میں داخل کئے گئے تو آپ نے انبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! تم سے جو مجھے پہچا نتا ہے وہ تو پہچا نتا ہی ہے ،اور جو نہیں پہچانتا میں ایسے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں ؟سنو،میں علی بن الحسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہوں ۔
میں اس کافر زند ہوں جس نے حج کئے ہیں اس کا فرزند ہوں جس نے طواف کعبہ کیا ہے اور سعی کی ہے ،میں فرزند فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ہوں ،میں اس کا فرزند جس کو پسِ گردن سے ذبح کیا گیا ،میں اس پیاسے کا فر زند ہوں جو پیاسا ہی دنیا میں اٹھا ،میں اس کا فرزند ہوں جس پر لوگوں نے پانی بند کر دیا ،حالانکہ تمام مخلوقات پر پانی کو جائز قرار دیا ،میں محمد مصطفیٰ کا فرزند ہوں ،میں اس کا فرزند ہوں جو کر بلا میں شہیدکیا گیا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے انصار زمین میں آرام کی نیند سو گئے ،میں اس کا پسر ہوں جس کے اہلِ حرم قید کر دیے گئے ،میں اس کا فرزند ہوں جس کے بچے بغیر جرم وخطا ذبح کر ڈالے گئے ،میں اس کا بیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگا دی گئی ،میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا ،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہلِ حرم کی کربلا میں بیحر مٹی کی گئی ،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اردگر د سوائے دشمن کے کوئی اور نہ تھا ،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کو قید کرکے شام تک پھرا یا گیا،میں اس کا فرند ہوں جو بے یارو مدد گار تھا۔

پھر امام رضی اللہ عنہ نے فرمایالو گو ! خدا نے ہم کو پانچ فضیلت بخشی ہیں :
۱: خد کی قسم ہمارے ہی گھر میں فرشتوں کی آمدورفت رہی اور ہم ہی معدن بنوت ورسالت ہیں ۔ ۲:ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں ،اور ہم نے لوگوں کی ہدایت کی ۔
۳:شجاعت ہمارے ہی گھر کی کنیز ہے ،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اور فصاحت ہمارا ہی حصہ ہے ،جب فصحاء فخرو مباہات کریں ۔

۴:ہم ہی صراطِ مستقیم اور ہدایت کا مرکز ہیں اور اس کیلئے علم کا سر چشمہ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہے اور دنیا کے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے ۔
۵:ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اور زمینوں میں بلند ہیں ،اگر ہم نہ ہوتے تو خدا دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا،ہر فخر ہمارے فخر کے سامنے پست ہے ،ہمارے دوست (روزقیامت)کے سیروسیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزقیامت بد بختی میں ہوں گے۔

جب لوگوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا کلام سنا تو یزید گھبرا اٹھا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اس نے اس کے رد عمل میں فوراً موذن کو حکم دیا (کہ اذان شروع کر کے )امام کے خطبہ کو منقطع کر دے،موذن (گلدستہ اذان پر گیا )۔
اور کہا”اللہ اکبر “(خدا کی ذات سب سے بزرگ وبرتر ہے )امام نے فرمایا تو نے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور ایک عظیم الشان ذات کی عظمت کا اظہار کیا اور جو کچھ کہا”حق “ہے ۔
پھر موذن نے کہا”اشہدان لاالہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں )امام نے فرمایا میں بھی اس مقصد کی ہر گواہ کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اور ہر انکار کرنے والے کے خلاف اقرار کر تا ہوں ۔
پھر موذن نے کہ”اشہدان محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ “(میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسو ل ہیں )یہ سن کر حضرت علی ابن الحسین رضی اللہ عنہ روپڑے اور فرمایا اے یزید میں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میرے نانا تھے یا تیرے؟یزید نے کہا آپ کے ۔
آپ نے فرمایا پھر کیوں تو نے ان کے اہلبیت کو شہید کیا ،یزید نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے محل میں یہ کہتا ہوا چلا گیا،مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں ،اس کے بعد منہال بن عمر کھڑے ہو گئے اور کہا فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا کیا حال ہے ؟فرمایا اے منہال ایسے شخص کا کیا حال پوچھتے ہو جس کا باپ نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا ہوجس کے مددگار ختم کر دیے گئے ہوں جو اپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کو قیدی دیکھ رہا ہو،جن کا نہ کوئی مددگار ہے نہ حامی ،تم تو دیکھ رہے ہو کہ میں مقید ہوں ،نہ کوئی میرا ناصر ہے ،نہ مدد گار،میں اور میرے اہل بیت پھٹے پرانے لباس میں ملبوس ہیں ۔
ہم پر نئے لباس حرام کر دیے گئے ہیں اب جو تم میرا حال پوچھتے ہو تو میں تمہارے سامنے موجود ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو ،ہمارے دشمن ہمیں برابھلا کہتے ہیں اور ہم صبح وشام موت کا انتظار کرتے ہیں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu