Open Menu

Hazrat Syedna Abu Saeed R.a Ky Akaid - Article No. 1489

Hazrat Syedna Abu Saeed R.a Ky Akaid

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے عقائد - تحریر نمبر 1489

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منبر پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا

جمعرات 25 جنوری 2018

رسول مختارﷺ:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے منبر پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا کہ وہ دنیا کی نعمتیں لے لے یا اللہ تعالیٰ کے پاس رہے تو اس بندے نے اللہ کے پاس رہنا اختیار کرلیا“
یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ روئے اور خوب روئے کہا میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا جس شخص کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہﷺ تھے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔
عقیدہ:نبی پاکﷺ مختار نبی ہیں جس شخصیت کو موت اور حیات پر اختیار دیا گیا ہے اور کون سی چیز اُن کے اختیار سے باہر ہوگی۔
سو آدمی کا قتل اور اُس کی بخشش:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کئے پھر اس نے زمین والوں سے پوچھا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟اسے ایک بڑا راہب کا پتا بتایا گیا وہ شخص اس راہب کے پاس گیا اورکہا کہ اس نے ننانوے قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟اس نے کہا نہیں اس شخص نے اس راہب کو بھی قتل کرکے پورے سو کردئیے پھر اس نے پوچھا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے؟تو اس کو ایک عالم کا بتایا گیا اس شخص نے کہا کہ اس نے سو قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے!عالم نے کہا ہاںتوبہ کی قبولیت میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

جاﺅ فلاں جگہ پر جاﺅ وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہیں تم ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اپنی زمین کی طرف واپس نہ جاﺅ،وہ شخص روانہ ہوا جب وہ آدھے راستے پر پہنچا تو اس کو موت نے آلیا اور اس کے متعلق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا۔رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ شخص توبہ کرتا ہوا اوردل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کیا اس نے بالکل کوئی نیک عمل نہیں کیا پھر ان کے پاس آدمی کی صورت میں ایک فرشتہ آیا انہوں نے اس کو اپنے درمیان حکم بنالیا اس نے کہا۔
دونوں زمینوں کی پیمائش کرو ۔وہ جس زمین کے زیادہ قریب ہو اس کے مطابق اس کا حکم ہوگا جب انہوں نے پیمائش کی تو وہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے کا ارادہ کیا تھا تو رحمت کے فرشتے اسے لے گئے۔
عقیدہ:اولیاءاللہ کے آستانوں کی طرف سفر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں توبہ کرنے کے لئے بھی اولیاءاللہ کے آستانوں پر حاضری دینی چاہیے کیونکہ وہ رحمتوں اوربرکتوں کا مرکز ہوتے ہیں ان کی برکت سے بخشش بھی ہو جاتی ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی دوسری روائت میں ہے کہ۔

”پس وہ ایک بالشت کے برابر صالح آدمیوں کی بستی کے قریب تھا“
گستاخ رسول کی نسل کی علامات:
سیدنا ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی خدمت اقداس میں حاضر تھے آپﷺ کچھ تقسیم فرمارہے تھے کہ ذوالخویصرہ جو کہ بنی تمیم سے تھا آیا اس نے کہا یا رسول اللہ اعدال اے رسول اللہ انصاف کرو تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ہلاکت ہے تیرے لئے اگر میں انصاف نہیں کرتا تو پھر اور کون انصاف کرے گا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے میں اس کا سر قلم کردوں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”اسے چھوڑ دو اس کے کچھ ساتھی ہوں گے تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں سے حقیر جانوگے اوران کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر جانو گے پڑھیں گے وہ قرآن لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتاہے اس تیر کے پھل کو اور نیزے کو دیکھو تو اس میں کچھ بھی یعنی خون وغیرہ نہیں لگا ہوگا“
حضرت ابو سیعد فرماتے ہیں کہ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہﷺ سے سنی اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں پر جہاد کیا اور میں ان کے ساتھ تھا“
عقیدہ:گستاخ رسول کی نمازیں اورروزے وغیرہ عبادات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نا مقبول ہیں نبی پاکﷺ نے ان کی علامات اوراعمال اوران کا انجام بھی بیان فرمادیا ہے نیز معلوم ہوا کہ نمازی روزہ داراگر نبی پاکﷺ کا بے ادب اور گستاخ ہے تو وہ دائرہ اسلام سے بھی خارج ہے گستاخی اور بے ادبی کا علم ان کی گفتگو اور تحریروں سے ہوتا ہے نہ کہ عمل سے۔

حلفاً غیب کی خبر دینا:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی پاکﷺ کے ساتھ نکلے تو آپﷺ وادی عفان میں ٹھہرے گئے اوروہاں کچھ راتیں قیام فرمایا توکچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم یہاں کچھ بھی نہیں کررہے اورہمارے گھر خالی ہیں ہماری عورتیں تنہا ہیں ہم اپنے گھروں کو محفوظ نہیں سمجھتے یہ خبر نبی پاکﷺ کو پہنچی توفرمایا:
”مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مدینہ منورہ کی یہ گھاٹی اورہر راستہ پر دو دو فرشتے حفاظت کے لئے پہرہ دے رہے ہیں جب تک ہم وہاں مدینہ منورہ نہ پہنچیں پہرہ دیتے رہیں گے“
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا مدینہ منورہ کی طرف کوچ کرو اور جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے ابھی ہم نے سامان رکھا بھی نہ تھا کہ بنو غطفان نے حملہ کردیا۔

عقیدہ:صحابہ اکرام علیہم الرضوان نے نبی پاکﷺ کا حلفاً غیب کی خبر دینے کا فرما کر اس غیب کی خبر کا مبنی برحقیقت ہونا حلفاً بیان فرمایا ہے جو لوگ نبی پاکﷺ ک علم غیب کو شرک قرار دیتے ہیں ان کا صحابہ کرام علیہم الرضوان کے حلفیہ بیان کے متعلق کیا خیال ہے؟اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو محفوظ فرمائے۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu