Open Menu

Husn E Salook - Article No. 3354

Husn E Salook

حسن سلوک ۔ ام الاحسانات - تحریر نمبر 3354

حسن سلوک ایک ایسا عمل ہے جسکے بے شمار معنی و مطالب ہو سکتے ہیں جن میں سے چند ایک کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے رحم دلی، ہمدردی، شفقت، اعلی ظرفی، سخاوت ، درد مندی، مددگار اور حق ادا کرنا

Zaeem Arshad زعیم ارشد منگل 31 مارچ 2020

اللہ کریم اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی سورة رحمن کی آیت نمبر ۶۰:۵۵ میں فرماتے ہیں کہ: ھل جزآء ’ ا لاِ حسانِ اِلاًَ الاِحسَان۔ یعنی نیکی کا بہترین بدل صرف نیکی ہی ہو سکتی ہے۔
حضرت ابو دردا ء  سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: (بروز قیامت) مومن کے اعمال میں سے جو چیز میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہوگی ، وہ ہے اس کے اچھے اخلاق، اور بلا شبہ اللہ بداخلاق شخص پر ناراض ہوگا۔
(ترمذی)
یعنی حسن سلوک ایک ایسا عمل ہے جسکے بے شمار معنی و مطالب ہو سکتے ہیں جن میں سے چند ایک کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے رحم دلی، ہمدردی، شفقت، اعلی ظرفی، سخاوت ، درد مندی، مددگار اور حق ادا کرنا۔ بلا شبہ ہر شخص اکیلا پیدا ہوا ہے اور اکیلا ہی اس دنیا سے جائے گا۔ ۔ قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زندگی کس طرح گزار تا ہے، یہ اس کے طرز عمل پر منحصر ہے کہ آیا وہ اپنے اردگر د کے لوگوں کیلئے باعث تسکین و آرام ہے یا وہ لوگوں کیلئے تکلیف و ایزا کا سبب بنا ہوا ہے، درد سری بنا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

اگر لوگ مل جل کر باہمی تعاون ، ایثار و محبت سے زندگی گزارتے ہیں تو اس کا فائدہ دو نوں طرف پہنچتا ہے ، ہر شخص خوش، مطمئن اور سکون سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے، یعنی لوگوں کیلئے اگر کوئی خوشی و آسانی کا باعث ہے تو اسکی اپنی زندگی بھی ضرور آرام و سکون سے مزین ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر لوگ جھگڑالو ہوں، غیر مہذب، بد اخلاق اور غیر ذمہ دار ہوں تو نہ صرف وہ خود پنے لئے بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لئے بے سکونی و آزار کا سبب ہوتے ہیں۔
اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی مستقل آزمائش بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ اس طرز عمل سے نہ صرف ساتھ رہنے والے لوگ پریشان و مظرب رہتے ہیں بلکہ نفسیاتی و روحانی طور پر بے سکون و مضطرب رہتے ہیں، وہ چاہے لاکھ جتائیں کہ وہ بہت خوش ہیں مگر اندر ہی اندر بے سکونی انہیں گھن کی طرح کھا رہی ہوتی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں خود ہی کرنا ہوتا ہے کہ ہمیں ایک خوشگوار، پرسکون اور مطمئن زندگی گزارنی ہے یا مضطرب، بے چین، اور غیر مطمئن ۔
انتخاب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے اور آپ کے زندگی گزارنے کے عملی طریقے پر منحصر ہے کہ آپ معاشرے کی سودمند اکائی ہیں یا ببول کا کانٹا ۔
ٓآپ ﷺ کے اسوہ حْسنہ پوری کائنات کے لئے بہترین نمونہ ہیں، آپ ﷺ نے انتہائی مشکل حالات میں بھی نہایت اعلی ترین حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا اور اپنے صحابہ کرام  کی ایسی شخصیت و کردار سازی کی کہ وہ بھی دنیا کے لئے بہترین اخلاق کی مثال بن گئے۔

اللہ ربّ العزّت، بزرگ و برتر اپنی عظیم ترین کتاب قرآن مجید میں اوپر بیان کی گئی آیات میں یہی پیغام دے رہے ہیں، نوع انسانی کو یہی سبق سکھا رہے ہیں کہ ، نیکی کا بدلا محض نیکی ہی ہوسکتی ہے، یا نیکی کا بہترین بدل صرف نیکی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کو ہم دو مختلف ذایوں سے بھی دیکھ سکتے ہیں، پہلا یہ کہ اگر ہم کسی کے ساتھ اچھّا سلوک کرتے ہیں مہربانی و اخلاق سے پیش آتے ہیں تو قوی امکان اس بات کا ہی ہوتا ہے کہ سامنے والا بھی ہمارے ساتھ خوش اخلاقی ، نیاز مندی اور بھائی چارہ سے رہے گا۔
اور دوسرا یہ کہ اللہ کریم ہمیں ہدایت فرما رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق روا رکھنا چاہئے، لوگوں کی نیکیوں کا جواب ہمیشہ نیکی کی شکل میں ہی دینا چاہئے اور خوب بڑھ چڑھ کر دینا چاہئے۔ دونوں صورتوں میں انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر معاشرے میں نیکی ہی رائج اور غالب ہونا چاہئے۔
یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ حسن اخلاق اپنے اندر لا محدود فوائد سموئے ہوئے ہے، مثال کے طور پر اگر ہم صرف اللہ کی رضا کیلئے دوسرے لوگوں کے ساتھ بلا کسی غرض و غائت پورے اخلاص کے ساتھ نیکی و رحم دلی روا رکھتے ہیں ، جیسا کہ اللہ خود رحمن و رحیم ہیں او ر اپنی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اللہ کریم کو بہت پسند ہے۔
اور یقینا اس حسن سلوک کے نتیجے میں اللہ ہم سے راضی ہوتے ہیں اور زندگی میں ہمیں اپنی مہربانیوں اور عنایات سے نوازتے ہیں، بلکہ ہماری اخروی زندگی بھی سنوار دیتے ہیں۔ یعنی دین و دنیا دونوں کی بھلائی صرف اس ایک عمل کے بدلے میں حاصل ہو جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ مسلسل حسن اخلاق کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن جگری دوست بن جاتے ہیں اور دوست نما منافقین کا پردہ بھی چاک ہوجاتا ہے اور وہ کھل کر دشمنی پر اتر آتے ہیں۔
اگر سب لوگ حسن اخلاق کو اپنا شعار بنا لیں تو یہ زندگی گل و گلزار بن سکتی ہے اور یہ دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کبھی کھبی کچھ لوگ دوسروں کی خوش خلقی اور خوش مزاجی کو ان کی شخصی کمزوری سمجھ لیتے ہیں، بالکل اسی طرح کچھ لوگ یہ گمان بھی کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے نرمی برتی یا خوش اخلاقی سے پیش آئے تو لوگ ان کو بیوقوف اور کمزور سمجھیں کہ اور ان کی نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
تو پھر بجائے اس کے کہ لوگ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں جان بوجھ کر بد اخلاقی اور ترش روئی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ اسطرح کے برتاؤ کے نتیجے میں دوسرا بھی محتاط ہو جاتا ہے اور ترش روی و بداخلاقی روا رکھتا ہے جو وہ بھگت رہا ہوتا ہے۔ حقیقتاً دونوں ہی خسارے کا سودا کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ کسی کو دکھ دے کر کوئی خود بھی چین سے نہیں رہ سکتا۔

لہذا ہمیں حسن اخلاق و ملنساری کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی کا شعار بنا لینا چاہئے، تو اس کے نتیجے میں اللہ نا موافق حالات کو بھی ہمارے حق میں کر دیں گے اور ہمارے دشمن ہمارے دوست بن جائیں گے ۔ نیکی خلوس نیت کے ساتھ بلا کسی غرض کے کرتے رہنا چاہئے، اور زمانے سے اس کے اجر کی توقع نہیں رکھنا چاہئے، ہاں اس بات کا یقین رکھنا چاہئے کہ اس کے نتیجے مین اللہ ہم سے دنیا میں بھی راضی ہو جائیگا اور ہم پر رحم و کرم کریگا اور آخرت میں بھی اجر و ثواب عطاء فرمائیگا ۔
اس مقام پر ہمیں قرآن کے ان الفاظ کا یقین ہونا چاہئے کہ اگر اللہ ہمیں کسی آفت یا پریشانی میں مبتلا کردیں تو اس کو کوئی اور ہم سے ہٹا نہیں سکتا صرف اللہ ہی ہمیں اس سے نجات دے سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر اللہ ہم پر مہربان ہوں تو ہم سے کوئی ہماری خوش نصیبی و عافیت چھین نہیں سکتا۔ یاد رکھیں حسن سلوک وہ نہیں جو غلط امداد کی شکل میں کی جائے یا جس کے نتائج مثبت نہ نکلیں ، مثلاً اگر ہم بچوں یا نوجوانوں کو سگریٹ خریدنے کے لئے پیسے دیں تو نہ یہ حسن اخلاق ہے اور نہ ہی یہ مدد کہلائے گی بلکہ یہ تو نوجوان کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہوگا۔
بالکل اسی طرح اگر ہماری امداد کسی کو عادی بھکاری بنا دیتی ہے تو یہ مدد ہوئی نہ خوش خلقی، اسی طرح طلباء کو بجائے تعلیم دینے کے پرچی بنانا سکھانا، یا کسی کو رشوت اس نیت سے دینا کے وہ محنت کرتا ہے یا غلط طریقوں سے پیسہ کما کر خیرات کرنا، یہ نیکی یا حسن سلوک کے زمرے میں نہیں آئے گا، آخر میں نیکی دکھاوے کیلئے کرنا بھی منافقت و ریاکاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے پسندیدہ طریقے اور پسندیدہ راستے پر چلنے اور زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائیں اور ہمیں دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرنے کی استطاعت عطاء فرمائیں ۔ آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu