Open Menu

IBLEES KON - Article No. 2296

IBLEES KON

ابلیس کون؟ - تحریر نمبر 2296

صحیح مسلم میں ام المو منین حضرت سیّد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنات کو بھڑ کتی ہوئی آگ سے اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے

بدھ 29 اگست 2018

ابلیس کون ؟
صحیح مسلم میں ام المو منین حضرت سیّد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اسے مروی ہے کہ ابلیس کون ؟
صحیح مسلم میں ام المو منین حضرت سیّد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنات کو بھڑ کتی ہوئی آگ سے اوحضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ایک لمحہ کے لئے بھی فرشتوں میں شمار نہیں ہوا۔

حضرت شہر بن حوشب رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ ابلیس جنات میں سے تھا جب جنات نے زمین پر فساد بر پا کیا تو اللہ عزوجل نے فرشتوں کی ایک جماعت کے ذریعے انہیں مارڈالا اور جو بچے انہیں سمندری جزیروں کی جانب دھکیل دیا گیا ۔

(جاری ہے)

ابلیس بھی انہی جنات میں سے تھا اور اسے فرشتے قید کرکے اپنے ساتھ آسمانوں پر لے گئے تھے ۔یہ عرصہ دراز تک وہیں رہا پھر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اسے بھی سجدے کا حکم ہو ا مگر یہ انکاری ہوا اور قیامت تک کے لئے لعنت کاطوق اپنے گلے میں ڈال لیا ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حضرت ابن عباس اور دیگر چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت اور حضرت سعید بن مسّیب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ابلیس آسمانِ دنیا پر فرشتوں کے گروہ کا سردار تھا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کانام ”عزرائیل “تھا اور آپ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت کے مطابق ابیلس کا نام ”حارث“تھا ۔
حضرت نقاش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کی کنیت ”ابوکردوس “ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابلیس فرشتوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتا تھا جنہیں ”جن“کہا جاتا ہے اور یہ جنت کے خزانچی تھے ۔ابلیس ان سب میں شرافت والا ‘علم والا اور عبادت گذار تھا ۔اس کے چارپر تھے ۔پھر اللہ عزوجل نے اس کے غرور وتکبر کی بدولت اسے شیطان بنا دیا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :جب تمہار ے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا پھر جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور اپنی جانب سے روح پھونک دوں تو تم اسے سجدہ کرنا ۔سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے غرور کیا اور وہ کافروں میں سے تھا ۔(اللہ نے )فرمایا :اے ابلیس !تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا کہ تو اسے سجدہ نہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ؟کیا تو مغرور ہے یا تو تھا تکبر کرنے والوں میں سے ؟(ابلیس )بولا : میں اس (آدم علیہ السلام ) سے بہتر ہوں ۔
تو نے مجھے آگ سے بنا یا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے ۔(اللہ نے ) فرمایا :تو جنت سے نکل جا کہ تو بھٹکا ہوا ہو گیا اور بے شک قیامت تک کے لئے میری جانب سے تجھے لعنت ہے ۔(ابلیس )بولا: اے میرے رب ! مجھے اس دن تک کے لئے مہلت دے دے جب سب اٹھائے جائیں گے ۔(اللہ نے) فرمایا : تجھے مہلت ہے اس جانے ہوئے دن تک ۔(ابلیس )بولا :تیری عزت کی قسم ! میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوئے ہوں گے ۔
(اللہ نے ) فرمایا :سچ یہ ہے اور میں سچ ہی فرماتا ہوں بے شک میں دوزخ کو ان سے بھردوں گا جو تیری پیروی کریں گے ۔“ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :
”(ابلیس )بولا قسم ہے اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور سیدھے راستہ پر تاک میں بیٹھوں گا اور آؤں گا آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور تو ان میں سے بیشتر گزار نہ پائے گا ۔

یعنی چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اور مجھے اپنی بارگاہ سے دھتکا ر دیا ہے تو میں تیرے بندوں کے راستہ میں آؤں گا اور انہیں چاروں جانب سے گھیروں گا اور انہیں گمراہ کروں گا ۔پس جو نیک لوگ ہوں گے وہ اس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اس کی مخالفت کریں گے اور جو بد بخت ہوں گے وہ اس کی پیروی کریں گے ۔حضرت اما م احمد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت سبرہ بن ابی فاکہ رضی اللہ عنہ سے منقول کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لئے ہر بھلائی کے راستہ میں بیٹھا ہے ۔
مفسرین کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم تمام فرشتوں کو دیا گیا تھا جیسا کہ آیات سے بالعموم واضح ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے ضحاک رحمتہ اللہ علیہ کے تو سل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اس حکم سے مرادوہ فرشتے تھے جو زمین میں تھے ۔بعض مفسرین نے اس قول کو بھی فوقیت دی ہے لیکن ظاہر اور صحیح روایات یہی ہیں کہ سجدے کا حکم تمام فرشتوں کے لئے تھا اور اللہ عزوجل کا ابلیس کر فرمانا کہ یہاں سے اتر جا اور نکل جا اس بات پردلیل ہے کہ ابلیس آسمانوں پر رہتا تھا لہٰذا اللہ عزوجل نے اسے آسمانوں سے اترنے کا حکم دیا اور اسے اس کی عزت ومرتبہ سے بے دخل کر دیا ۔
ابلیس اپنی عبادت وریاضت کی بدولت فرشتوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کا یہ مقام ومرتبہ اس کے غرور اور انکار کی بدولت اس سے چھن لیا گیا ۔اسے ذلیل وخوار کیا گیااور زمین کی جانب دھکیل دیا گیا ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنات کو بھڑ کتی ہوئی آگ سے اوحضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ایک لمحہ کے لئے بھی فرشتوں میں شمار نہیں ہوا۔
حضرت شہر بن حوشب رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ ابلیس جنات میں سے تھا جب جنات نے زمین پر فساد بر پا کیا تو اللہ عزوجل نے فرشتوں کی ایک جماعت کے ذریعے انہیں مارڈالا اور جو بچے انہیں سمندری جزیروں کی جانب دھکیل دیا گیا ۔ابلیس بھی انہی جنات میں سے تھا اور اسے فرشتے قید کرکے اپنے ساتھ آسمانوں پر لے گئے تھے ۔یہ عرصہ دراز تک وہیں رہا پھر جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو اسے بھی سجدے کا حکم ہو ا مگر یہ انکاری ہوا اور قیامت تک کے لئے لعنت کاطوق اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حضرت ابن عباس اور دیگر چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت اور حضرت سعید بن مسّیب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ابلیس آسمانِ دنیا پر فرشتوں کے گروہ کا سردار تھا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کانام ”عزرائیل “تھا اور آپ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک اور روایت کے مطابق ابیلس کا نام ”حارث“تھا ۔
حضرت نقاش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کی کنیت ”ابوکردوس “ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابلیس فرشتوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتا تھا جنہیں ”جن“کہا جاتا ہے اور یہ جنت کے خزانچی تھے ۔ابلیس ان سب میں شرافت والا ‘علم والا اور عبادت گذار تھا ۔اس کے چارپر تھے ۔پھر اللہ عزوجل نے اس کے غرور وتکبر کی بدولت اسے شیطان بنا دیا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :جب تمہار ے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا پھر جب میں اسے ٹھیک کرلوں اور اپنی جانب سے روح پھونک دوں تو تم اسے سجدہ کرنا ۔سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے غرور کیا اور وہ کافروں میں سے تھا ۔(اللہ نے )فرمایا :اے ابلیس !تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا کہ تو اسے سجدہ نہ کرے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ؟کیا تو مغرور ہے یا تو تھا تکبر کرنے والوں میں سے ؟(ابلیس )بولا : میں اس (آدم علیہ السلام ) سے بہتر ہوں ۔
تو نے مجھے آگ سے بنا یا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے ۔(اللہ نے ) فرمایا :تو جنت سے نکل جا کہ تو بھٹکا ہوا ہو گیا اور بے شک قیامت تک کے لئے میری جانب سے تجھے لعنت ہے ۔(ابلیس )بولا: اے میرے رب ! مجھے اس دن تک کے لئے مہلت دے دے جب سب اٹھائے جائیں گے ۔(اللہ نے) فرمایا : تجھے مہلت ہے اس جانے ہوئے دن تک ۔(ابلیس )بولا :تیری عزت کی قسم ! میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوئے ہوں گے ۔
(اللہ نے ) فرمایا :سچ یہ ہے اور میں سچ ہی فرماتا ہوں بے شک میں دوزخ کو ان سے بھردوں گا جو تیری پیروی کریں گے ۔“ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :
”(ابلیس )بولا قسم ہے اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور سیدھے راستہ پر تاک میں بیٹھوں گا اور آؤں گا آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور تو ان میں سے بیشتر گزار نہ پائے گا ۔

یعنی چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اور مجھے اپنی بارگاہ سے دھتکا ر دیا ہے تو میں تیرے بندوں کے راستہ میں آؤں گا اور انہیں چاروں جانب سے گھیروں گا اور انہیں گمراہ کروں گا ۔پس جو نیک لوگ ہوں گے وہ اس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اور اس کی مخالفت کریں گے اور جو بد بخت ہوں گے وہ اس کی پیروی کریں گے ۔حضرت اما م احمد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت سبرہ بن ابی فاکہ رضی اللہ عنہ سے منقول کیا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لئے ہر بھلائی کے راستہ میں بیٹھا ہے ۔
مفسرین کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم تمام فرشتوں کو دیا گیا تھا جیسا کہ آیات سے بالعموم واضح ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے ضحاک رحمتہ اللہ علیہ کے تو سل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اس حکم سے مرادوہ فرشتے تھے جو زمین میں تھے ۔بعض مفسرین نے اس قول کو بھی فوقیت دی ہے لیکن ظاہر اور صحیح روایات یہی ہیں کہ سجدے کا حکم تمام فرشتوں کے لئے تھا اور اللہ عزوجل کا ابلیس کر فرمانا کہ یہاں سے اتر جا اور نکل جا اس بات پردلیل ہے کہ ابلیس آسمانوں پر رہتا تھا لہٰذا اللہ عزوجل نے اسے آسمانوں سے اترنے کا حکم دیا اور اسے اس کی عزت ومرتبہ سے بے دخل کر دیا ۔
ابلیس اپنی عبادت وریاضت کی بدولت فرشتوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کا یہ مقام ومرتبہ اس کے غرور اور انکار کی بدولت اس سے چھن لیا گیا ۔اسے ذلیل وخوار کیا گیااور زمین کی جانب دھکیل دیا گیا ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu