Open Menu

Imam Fil Hadees Hazrat Imam Bukhari R.A - Article No. 2116

Imam Fil Hadees Hazrat Imam Bukhari R.A

امام فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ - تحریر نمبر 2116

امام بخاری نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردوبدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں

جمعرات 19 جولائی 2018

آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پیشرو آئمہ کی آرزو ، اساتزہ کا فخر اور معاصرین کے لیے سراپا رشک تھے صحیح بخاری یا الجامع الصحیح یا عام طور سے البخاری یا صحیح بخاری شریف بھی کہا جاتا ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کی مرتب کردہ شہرہ آفاق مجموعہ ءاحادیث ہے جو کہ صحاح ستہ کی چھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے، زیادہ تر مسلمانوں کے نزدیک یہ مجموعہءاحادیث روئے زمین پر قرآن کے بعد سب سے مستند کتاب ہے۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اپنے پیش وآئمہ کی آرزو، اساتزہ کا فخر اور معاصرین کیلئے سراپا رشک تھے، ان کے زمانہ میں احمد بن حنبل یحٰیی بن معین اور علی بن مدینی کا فنِ حدیث میں چرچا تھا ۔ لیکن جب آسمان علمِ حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع ہوا تو تمام محدثین ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے۔

(جاری ہے)

امام بخاری قدس سرہ شہر بخارا میں بتاریخ 13 شوال 194 ھ نماز جمعہ کے بعد پیدا ہ ہوئے۔

یہ فخرامت میں کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سید المحدثین ۔اللہ تعالیٰ نے یہ شرف حضرت امام بخاری کو نصیب فرمایا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو ” کریم ابن الکریم ابن کریم“ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت امام بخاری بھی بحدث ابن المحدث قرار پائے۔ آپ کے والد ماجد حضرت العلام مولانا اسماعیل صاحب اکابر محدثین میں سے ہیں۔
کنیت ابوالحسن ہے اور حضرت امام مالک کے خاص تلامزہ میں سے ہیں۔ مگر صدافسوس کہ والد ماجد نے اپنے ہونہار فرزند کا علمی زمانہ نہیں دیکھا اور آپ کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے۔ والد گرامی کی انتقال کے بعد حضرت امام بخاری کی تربیت کی پوری ذمہ داری والدہ محترمہ پر آگئی جو نہایت ہی خدا رسیدہ عبادت گزار شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان ودینداری کے پیش نظر اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ حضرت اما م بخاری کی تعلیم و تربیت کس انداز کے ساتھ ہوئی ہوگئی۔
امام بخاری نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔ انہوںنے بار گاہِ الہٰی میں آہ زاری کی ، عجزونیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی بینائی کیلئے دعائیں مانگیں۔ ایک مضطرب،بے قرار اور بے سہارا ماں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے ایک رات حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا جو فرما رہے تھے”جا اے نیک خوپا کبازخاتون ! تیری دعائیں قبول ہوئیں۔
تمہارے نوِ نظر اور لختِ جگر کو اللہ تعالیٰ نے پھر نورِ چشم سے نواز دیا“ صبح اٹھ کر دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔
غریب اور نادار طلبا کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے، ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمتہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔ احادیث رسول اللہ ﷺ کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر امام بخاری کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطاب ہوا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی، یعنی زمانہ رسالت کے بعد کچھ اور لوگ بھی وجود میں آئیں گے جو علوم کتاب و حکمت کے حامل ہوں گے حضرت امام بخاری یقیناََ ان ہی پاک نفوس کے سرخیل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ آل فارس میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ اگر دینی علوم ثریا ستارے پر ہوں گے تو وہاں سے بھی وہ ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ لا اختلاف الجامع الصیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے، جب ہم ان کی قوت حفظ کے کارنامے صفحات تاریخ پر دیکھتے ہیں تو یوں گمان ہوتا ہے جیسے وہ سر سے پیر تک حافظہ ہی حافظہ ہوں، ان کے حافظہ کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں ابو ہریروہ ؓ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔
حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری لڑکپن میں ہمارے ساتھ حدیث کے سماع کے لیے مشائخ بصرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ امام بخاری کے سواہم تمام ساتھی احادیث ضبط تحریر میں لے آئے تھے، 16 دن گزر جانے کے بعد ایک روز ہمیں خیال آیا اور ہم نے بخاری کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے احادیث ضبط نہ کر کے اتنے دنوں کی محنت ضائع کر دی۔ امام بخاری نے ہم سے کہا اچھا تم اپنے ضبط شدہ نوٹ لے آﺅ، ہم اپنے نوٹ لے کر آئے اور امام بخاری نے سلسلہ دار احادیث سنانی شروع کردیں۔
یہاں تک انہوں نے پندرہ ہزار سے زیادہ احادیث بیان کر ڈالیں اور یہ سن کر ہمیں یوں گمان ہوتا تھا کہ گویا یہ روایات ہمیں امام بخاری نے لکھوائی ہیں۔ محمد بن ازہر سجتانی کہتے ہیں کہ میں امام بخاری کے ساتھ سلیمان بن حرب کی خدمت میں سماع حدیث کے لیے حاضر ہوتا تھا میں احادیث لکھتا تھا اور امام بخاری نہیں لکھتے تھے کسی نے مجھ سے کہا کہ بخاری احادیث کو نوٹ کیوں نہیں کرتے میں نے کہا تم سے اگر کوئی حدیث لکھنے سے رہ جائے تو بخاری کے حافظہ سے لکھ لینا۔
امام بخاری کی قوتِ حفظ بیان کرنے کے لیے یہ امرکافی ہے کہ جس کتاب کو وہ ایک نظر دیکھ لیتے تھے وہ انہیں حفظ ہو جاتی تھی اور بعد میں جا کر یہ عدد تین لاکھ تک پہنچ گیا جن میں سے ایک لاکھ احادیث صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح تھیں۔ ایک مرتبہ بلخ گئے تو وہاں کے لوگوں نے فرمائش کی آپ اپنے شیوخ سے ایک ایک روایت بیان کریں تو آپ نے ایک ہزار شیوخ سے ایک ہزار احادیث زبانی بیان کر دیں۔
امام بخاری کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری حدیث سنتے اور کہتے ، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔
امام بخاری پہلے شحص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دوسری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی،مختصر یہ کہ امام بخاری نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردوبدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔
اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں اما م بخاری کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔
آپ کی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ نے بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت زکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس ان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ رب العزت میں سجدہ ریز ہوتے اور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے ۔
اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی۔ ابن الصلاح کے مطابق صحیح خاری میں احادیث کی کل تعداد 7275 ہے۔ یہ تعداد ان احادیث کو شامل کر کے ہے جو ایک سے زیادہ مرتبہ وارد ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ تعداد میں وارد احادیث کو اگر ایک ہی تسلیم کیا جائے تو احادیث کی تعداد 4000 رہ جاتی ہے۔
اُمت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر کسا، پرکھا اور جانچا مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کیلئے من جانب اللہ مقدر ہو چکا تھا وہ پتھر کی کبھی نہ مٹنے والی لکیریں بن گیا۔ امام بخاری مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے بہت سادہ اور جفا کش تھے اپنی ضرورت کے تمام کام خود کر لیا کرتے تھے۔ مال و دولت اور جاہ مرتبت کے اوجود کبھی خدام اور غلاموں کا حشم قائم نہیں رکھا۔
محمد بن حاتم وراق آپ کے خصوصی شاگرد تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام بخاری ؓخارا کے قریب سرائے بنا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر دیوار میں اینٹیں لگا رہے تھے میں نے آگے رک کر کہا آپ رہنے دیجئے یہ اینٹیں میں لگا دیتا ہوں آپ نے فرمایا قیامت کے دن یہ عمل مجھے نفع دے گا۔ وراق کہتے ہیں کہ جب ہم امام بخاری کے ساتھ کسی سفر میں جاتے تو آپ ہم سب کو ایک کمرہ میں جمع کردیا کرتے اور خود علیحدہ رہتے۔
ایک بار میں نے دیکھا امام بخاری رات کو پندرہ بیس مرتبہ اٹھے اور ہر مرتبہ خود اپنے ہاتھ سے آگ جلا کر چراغ روشن کیا کچھ احادیث نکالیں ان پر نشانات لگائے پر تکیہ پھر سررکھ کر لیٹ گئے۔میں نے عرض کیا آپ نے رات کو اٹھ کر تنہا مشقت برداشت کی مجھے اٹھا لیتے۔ فرمایا تم جوان ہو اور گہری نیند سوتے ہو میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا۔ امام بخاری بہت کم خوراک لیتے تھے طالب علموں کے ساتھ بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔
ایک دفعہ امام بخاری بیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو انہوں نے کہا یہ قادورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا۔ طبیبوں نے کہا اب آپ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔
بخارا سے واپس ہونے کے بعد امام بخاری نے سمر قند جانے کا قصد کیا، ابھی سمر قند سے کئی منزل دور تھے تو آپ کو اطلاع ملی کہ اہلِ سمر قند میں آپ کے بارے میں دو آراءہوگئی ہیں یہ سن کر آپ وہیں راستہ میں خرتنگ نامی ایک بستی میں رک گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اے خدا یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہوتی جا رہی ہے مجھے اپنے پاس واپس بلالے۔
اس دعا کے بعد آپ بیمار پڑ گئے۔ اس اثناءمیں اہلِ سمر قند نے بلانے کے لیے آپ کے پاس قاصد بھیجا آپ جانے کے لیے تیار ہو گئے مگر طاقت نے ساتھ نہ دیا۔ چند دعائیں پڑھیں اور لیٹ گئے۔ جسم سے پسینہ بہنا شروع ہوا۔ ابھی وہ پسینہ خشک نہ ہوا تھا کہ آپ نے جان ، جان آفرین کے سپرد کر دی اور اس طرح یکم شوال سن 265 ھ کو باسٹھ سال کی زندگی گزار کر رات کے وقت علم و فضل کا وہ عظم آفتاب غروب ہو گیا جس کے علم و عمل کی روشنی سے سمر قند، بخارا، بغداد اور نیا پور کے بے شمار عوام و خواص اپنے دل و دماغ کو منور کر رہے تھے۔
اگلے روز جب آپ کے انتقال کی خبر سمر قند اور اطراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زاہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب آپ کا جسدِ اقدس قبر میں رکھا گیا تو آپ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوبو باقی رہی۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے فیضان کا جو سلسلہ ان کی زندگی میں قائم ہوا تھا وہ آج تک بدستور جاری و ساری ہے اور آج امتِ مسلمہ دین کے جن احکام سے واقف ہیں ان میں امام بخاری کی خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی اشاعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ذکر کو دنیا میں پھیلا دیا اور سچ یہ ہے کہ جب تک مدارس اور مکاتب میں قیل و قالِ یا رسول اللہ ﷺ کی محفل سجی رہے گی آسمان رحمت سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر انواروتجلیات کی بارش ہوتی رہے گی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu