Open Menu

Islami Behri Bairay Kay Mojad - Article No. 3077

Islami Behri Bairay Kay Mojad

اسلامی بحری بیڑے کے موجد - تحریر نمبر 3077

پیر 1 اپریل 2019

مولانا مجیب الرحمن انقلابی

حضرت امیر معاویہؓ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے موجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ن کے لیے حضورؐ کی زبان مبارک سے کئی مرتبہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں۔ ان کی بہن حضرت امّ حبیبہ ؓ زوجہ رسولؐ اور اُمّ المؤمنین ہیں ،انہوں نے19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔

تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار و کارناموں اور فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔حضرت امیر معاویہ ؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضو رسے ملتا ہے۔حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں حضورؐنے فرمایا کہ! اللہ قیامت کے دن معاویہؓ کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ ان پر نورِ ایمان کی چادر ہوگی۔

(جاری ہے)

(کنزالعمال)ایک موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا کہ! اے اللہ معاویہؓ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔

(جامع ترمذی)حضورؐ نے ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ! معاویہ ؓمیری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔ (تطہیر الجنان ص 12) حضرت معاویہؓ سروقد، لحیم و شحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹی، گھنی داڑھی، وضع قطع، چال، ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فروتنی، حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی۔
حضرت امیر معاویہؓ نے جب اپنے اسلام قبول کیا تو حضورؐ نے انہیں مبارکباد دی ا (البدایہ والنہایہ 117/8)۔حضور ؐچونکہ حضرت امیر معاویہؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لیے انھیں اپنے خاص قرب سے نوازا۔ فتح مکہ کے بعد وہ حضورؐ کے ساتھ رہے اور تمام غزوات میں حضور ؐکی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔ قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ’’کتابت وحی‘‘ ہے۔
حضور نے جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ’’کاتبین وحی‘‘ تھے ان میں حضرت معاویہؓ کا چھٹا نمبر تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضورؐ اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ)۔حضرت امیر معاویہؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور ؐ کے خطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔

حضرت امیر معاویہؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفر و حضر میں بھی خدمت کا موقعہ تلاش کرتے، چنانچہ ایک بار حضورؐ کہیں تشریف لے چلے تو حضرت امیر معاویہؓ ساتھ ہو گئے۔ راستہ میں حضورؐ کو وضو کی حاجت ہوئی۔ پیچھے مڑے تو دیکھا امیر معاویہؓ پانی کا برتن لیے کھڑے ہیں آپ ؐبڑے چنانچہ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے۔ ’’معاویہؓ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں سے درگزر کرنا۔

‘‘ حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضورؐ کی پیشین گوئی صادق آئے گی اور میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیفہ ہو کر رہوں گا۔حضورؐ سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپؓ کے سپرد فرما دی تھیں۔ علامہ اکبر نجیب آبادی ’’تاریخ اسلام‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ حضور ؐنے اپنے باہر سے آ ئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام بھی حضرت معاویہؓ کے سپرد کر دیا تھا۔
حضورؐ کے وصال کے بعد خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں آپؓ نے مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سرانجام دیے۔ عرب نقاد رضوی لکھتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہؓ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر پھر بھی آپؓ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی سے پیچھے نہ تھے ایک روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت معاویہؓ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہؓ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپؓ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے ۔حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور انہوںنے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کر دیے… سیدنا حضرت امیر معاویہؓ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے ’’فتح قبرص‘‘ کی خواہش آپؓ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ و افریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
’’بحر روم‘‘ میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت قریبی خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام و مصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے… حضرت عثمان غنیؓ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کر دیا، جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے… 28ھ میں آپؓ پوری شان و شوکت، تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ ’’بحر روم‘‘ میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر سیدنا حضرت امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے قبرص (سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص (سائپرس) کو فتح کر لیا، اس لشکر کے امیر و قائد خود حضرت امیر معاویہؓ تھے آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ ، حضرت ابوذر غفاریؓ ، حضرت ابودردائؓ ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد بن اوسؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ شریک ہوئے ۔
اس لڑائی میں رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔حضور نے ’’اُمّ حرام‘‘ والی حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جنگ کرے گا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu