Open Menu

Islami Tasawwuf Ka Hindustan Main Parchar - Article No. 3460

اسلامی تصوف کا ہندوستان میں پرچار: اک جائزہ - تحریر نمبر 3460

دین اسلام اور آخری الہامی کتاب کے حامل نبی آخرالزماں ﷺ بھی یہاں سے ہزار ہا میل کی مسافت پر سرزمین حجاز پہ مبعوث ہوئے۔ آپ سرکار ﷺکا روشن دور مبارک گذرے بھی صدیاں بیت چکیں کہ اس خطہ ہندوستان پہ قدرت نے کمال مہربانی کی

Dr. Waqar Ali Gill ڈاکثر وقار علی گل پیر 15 جون 2020

خدا وند قدوس نے احسن انداز میں تخلیق کائنات کے بعد اپنے خلیفہ حضرت انسان کو یہاں اتارا۔ بہشت کا مکیں جب خاک نشیں ہوا تو تخّیل و تدبر میں بھی ردّو بدل وقوع پزیر ہوا۔ مسجود ملائک میں نفسانی طلاطم نے ہیجانی کیفیت پیدا کر دی اور نفس کسی منہ زور گھوڑے کی طرح سرکش و امّارہ بھی ہوا اور گمراہ و آوارہ بھی۔ اعلی تخیل کے مقصود کو بے راہ روی کا شکار ہوتے دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر نے اصلاح نفس کے لئے نیک سیرت انبیا و مرسلین مبعوث فرمائے جنہوں نے کمال مہارت و دانش مندی سے تزکیہ نفس کا اعلی و اہم فریضہ سرانجام دیا۔
مشیّت ایزدی کے تحت رسالت و نبوت اور پیغمبری کا سلسہ حضور سرور کائنات نبی مکرمﷺ پہ اپنے عروج بام و اختتام تک پہنچا جس کے بعد وحی الہی کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیتے ہوئے اسے تاقیامت سر چشمہ ہدایت متعین کر لیا گیا۔

(جاری ہے)


آخری الہامی و آسمانی کتاب قرآن پاک کو محفوظ رکھنے کا ذمہ خالق کائنات نے خود اپنے ذمّے لے لیا۔

اس دوران خطہ ارض پر پیغمبر، انبیا و مرسلین جہاں جہاں تشریف لے کے گئے وہاں کے مکین نور ایمانی سے فیض یاب ہوتے چلے گئے۔ ہندوستان کے قرب و جوار میں صحیفہ آسمانی کے نزول کے کوئی مستند آثار نہیں ملتے، شائد اسی لئے یہاں روح انسانی پیاسی اور روحانی وجد کی طلبگار ہی رہی۔
اگرچہ رامائن ، مہابھارت اور گیتا جیسی شہرہ آفاق کتب بھی یہیں تحریر کی گئیں اور رام، سدارتھ، چانکیہ اور دیگر مہان پرش بھی یہاں سماجی اصلاح کے لئے آگے بھی بڑھے مگر نور ایمانی اور روحانی تسکین کی حاجت ہمیشہ باقی ہی رہی۔

دین اسلام اور آخری الہامی کتاب کے حامل نبی آخرالزماں ﷺ بھی یہاں سے ہزار ہا میل کی مسافت پر سرزمین حجاز پہ مبعوث ہوئے۔ آپ سرکار ﷺکا روشن دور مبارک گذرے بھی صدیاں بیت چکیں کہ اس خطہ ہندوستان پہ قدرت نے کمال مہربانی کی اور اسے تعلیمات اسلامی سے روشناس کروانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ خدا شناس صاحبان امروز و امر نے آفاقی و اولین حقیقت کو یہاں کے باسیوں پہ منکشف کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ہندوستانیوں تک نور ایمانی اور تعلیمات قرآنی پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینا شروع کیا۔
ہزار ہا میلوں کی مسافت اور سینکڑوں سالوں کی دوری کو سمیٹتے ہوئے اسلامی تعلیمات میں مخفی حقیقتوں کو مکمل سچائی اورخلوص کے ساتھ ہند سندھ کی دھرتی تک لے آنا اور یہاں کے پیاسے باسیوں کو مستفید کرنا انہی نیک سیرت بزرگان دین کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ یہ کمال اخلاق اور انتہائی خلوص کے بنا ممکن نہ تھا۔ یہ بارود ،فولاد، تیر و تفنگ اور شاطر دولت دنیا کانہیں بلکہ سچائی پہ مبنی بے لوث انسان دوستی کا اثر تھاکہ پسی ہوئی انسانیت پھر سے زندہ و جاوید ہو گئی۔

اسلامی تصوف کو دیگر مذاہب عالم پہ یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ جہاں دیگر مذاہب میں فنافی الذات کو انتہائی مقام گردانتے ہوئے ہندو، بدھ اور عیسائی راہب ترک دنیا کرتے ہوئے غاروں اور جنگلوں تک ہی محدود رہ جاتے تھے اسلام نے وہاں آ کر فنا فی اللہ سے بھی اگلی باطنی منزلوں تک انسانیت کی رہنمائی کی۔ یورپی مصنّفین نے یہ ڈھونگ بھی رچایا کہ تصّوف اور صوفیا کرام ہندوانہ اور عیسائی فلسفہ سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ یہ بے بنیاد اور لغو بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ صوفیائے اسلام دیگر مذاہب سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ دیگر مذاہب عالم کے ارباب روحانیت نے مسلمان صوفیاکرام سے زبردست استفادہ کیا ہے۔

ہندو ریسرچ سکالر ڈاکٹر تارا چند نے تحقیق کے ذریعے اپنی کتاب INFLUENCE OF ISLAM ON HINDU CULTUREمیں ثابت کیا ہے کہ نامور ہندو ارباب روحانیت شنکر اچاریہ، رامانوجا، رامانند، کبیر اور دیگر نے روحانی تعلیمات مسلم صوفیا ء سے ہی حاصل کیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے تمام مشرکانہ ہندو عقائد مثلا بت پرستی ، تناسخ ذات، مردوں کو جلانا وغیرہ ترک کر کے اسلامی عقائد اختیار کر لئے تھے۔

صوفیائے کرام کا مطمع نظر اور طریقہ کار دور حاضر کے مشنریوں اور مبّلغوں سے بالکل مختلف رہا۔ انہوں نے اپنے آپ کو فقط غیر مسلموں میں اشاعت اسلام کے لئے وقف نہیں کر رکھا تھابلکہ تبدیل مذہب تو شائد ان کا مقصد اوّلین تھا بھی نہیں ۔ ان کے دروازے ہر مذہب، عقیدے اور معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بلا تفریق کھلے رہے۔ ان کا کام سبھی انسانوں میں بلا تفریق رشدو ہدایت تھا۔
مسلم صوفیا ء کرام کا مطمع نظر بھی عہد حاضر کے مبلغوں سے مختلف تھا اور ان کا طریق کار بھی اس زمانے کے عیسائی مشنریوں کی عین ضد تھا۔ انہوں نے کبھی یہ نہ کیا کہ دوسرے مذہبوں اور ان کے بانیوں کی بد گوئی کر کے اپنے مذہب کی فضیلت ثابت کریں۔ دوسرے مذہبوں کی طرف ان کاطرز عمل انتہائی رواداری اور صلح پسندی کا تھا۔ مسلمان صوفیوں کے صلح کل کے طریقوں اور ہندوؤں کے مذہب کے متعلق محتاط نقطہ نظر کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیاکرام کی اشاعت اسلام کی کوششوں کی کوئی خاص مخالفت نہ ہوئی ہندوؤں نے ان صوفیوں کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جنہوں نے اشاعت اسلام میں نام پیدا کیا ۔

اشاعت اسلام کے علاوہ بزرگان دین نے تمام مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کے لئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے انہیں بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج لوگ ان کے کام کا اندازہ ان کے جانشینوں کو دیکھ کر لگاتے ہیں جنہوں نے ان کی یاد گاروں کو تجارت کا سرمایہ بنا رکھا ہے یا پھر مزاروں پہ موجود ان لوگوں کے ہجوم سے صاحب مزار کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی حرکات و سکنات سے توہم پرستی ٹپکتی ہے۔
بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ ان باتوں سے کرنا بے انصافی ہے۔اس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم ان بزرگان دین کی مستندتعلیمات اور ان کے اصل حالات زندگی کامطالعہ بھی کریں اور ان کے اقوال و افعال پہ تدّبر اور غور و فکر کریں۔ آج بھی اگر فوائد الفواد، سیرالاولیا، زبدہ المقامات کا مطالعہ کریں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ حقیقی اسلام کہاں ہے اور تصوف کے انحطاط کے ساتھ قوم میں اخلاقی و روحانی زوال کیوں آگیا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu