Open Menu

Juma- Tul-wida Our Qazay Umari - Article No. 1949

Juma- Tul-wida Our Qazay Umari

جمعہ الوداع اور قضائے عمری - تحریر نمبر 1949

اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں فرما دیں جن کی اس ماہِ مقدس میں مغفرت ہو جاتی ہے اور وہ جہنم سے آزاد ہو جاتے ہیں،سردار مہینے کا سردار دن یعنی رمضان المبارک کا جمعہ المبارک(جمعہ الوداع )آ چکاہے،اس عظیم الشان دن کو پورے ادب و احترام کے ساتھ عبادات میں گزاریں۔ جو مسنون اعمال جمعہ المبارک میں ادا کیے جاتے ہیں ان کو پوری اطمینان قلبی سے مکمل کریں ، مزید یہ کہ اس دن صلوٰة التسبیح ، تلاوت قرآن ، ذکر اللہ ، درود پاک اورصدقہ و خیرات جیسے مبارک اعمال خوب خوب کریں۔

جمعہ 8 جون 2018

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن :
اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں فرما دیں جن کی اس ماہِ مقدس میں مغفرت ہو جاتی ہے اور وہ جہنم سے آزاد ہو جاتے ہیں،سردار مہینے کا سردار دن یعنی رمضان المبارک کا جمعہ المبارک(جمعہ الوداع )آ چکاہے،اس عظیم الشان دن کو پورے ادب و احترام کے ساتھ عبادات میں گزاریں۔

جو مسنون اعمال جمعہ المبارک میں ادا کیے جاتے ہیں ان کو پوری اطمینان قلبی سے مکمل کریں ، مزید یہ کہ اس دن صلوٰة التسبیح ، تلاوت قرآن ، ذکر اللہ ، درود پاک اورصدقہ و خیرات جیسے مبارک اعمال خوب خوب کریں۔ اس کے بعد اللہ کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ یا اللہ ہمیں رمضان کے بابرکت ایام بالخصوص سید الایام( جمعہ المبارک) کا دن بار بار نصیب فرما اور اگر ہماری زندگی کا یہ آخری رمضان اور آخری جمعہ الوداع ہے تو اے باری تعالیٰ اس کو ہماری مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا۔

(جاری ہے)

اور اس بات کوبھی اچھی طرح یاد رکھیں کہ ہماری مغفرت اور نجات کا دارومدار اللہ کے آخری نبی ﷺ کی سنت کی اتباع میں ہے۔ زمانے کے رسوم و رواج ، معاشرے کے خودساختہ خرافات اور بدعات یہ سب اللہ کے ہاں مواخذے اور پکڑ کا باعث ہیں نجات کے نہیں۔ہماری قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ عبادات میں افراط و تفریط کی شکار ہے۔ سنت میں بدعت کی ملاوٹ اور دین کے ثابت شدہ احکام و مسائل میں کمی و بیشی کا مرض اس کا سب سے بڑا المیہ ہے، چنانچہ جمعہ الوداع کے بارے میں بھی ہماری قوم اسی صورتحال سے دوچار ہے۔
بطور خاص اس دن جس مسئلہ کو زیادہ زیر بحث لایا جاتا ہے وہ ہے فوت شدہ نمازوں کو ادا کرنے کا۔ افسوس صد افسوس کہ بعض کم علم بلکہ احکام شریعت سے لاعلم لوگوں نے نماز جیسے دینی معاملے کو بھی اپنی اوٹ پٹانگ خواہشات کے تابع بنانے کی کوشش کی اور امت کو افراط و تفریط کے دو پاٹوں میں پاٹنے کا جرم کیا۔ ایک گروہ نے تو یہ نظریہ بنالیا کہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں محض توبہ ہی سے کام چلا لیا جائے۔
جبکہ دوسری طرف بعض لوگوں نے اس عبادت کا حلیہ بگاڑتے ہوئے یہ حل نکالا کہ ساری زندگی کی نمازیں ادا کرنا بہت دشوار ہے اس لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو قضائے عمری کے نام سے ایک نئی نماز ایجاد کی اور یہ کہا کہ صرف چار رکعتوں کو مخصوص طریقے سے ادا کر لینے سے ساری عمر کی نمازیں ادا ہو جائیں گی۔اس سوچ کے حامل افراد رمضان المبارک میں اس مخصوص نماز کے جھوٹے میسجز پھیلاتے ہیں، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کی گمراہی کے جال میں پھنس جاتا ہے ، عام سادہ لوح مسلمان بھی اسے صحیح سمجھ کر اپنی زندگی بھر کی نمازیں ادا نہیں کرتے اور اس نماز کو پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
جبکہ شریعت اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ قضاء شدہ نمازیں نہ تو محض توبہ سے معاف ہوتی ہیں اور نہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ المبارک کو چار رکعات کی مخصوص نماز کو ادا کرلینے سے ساری نمازیں ادا ہوتی ہیں بلکہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔آج کل کے تیز رفتار زمانے کے سست رفتار مسلمان کی حالت قابل توجہ بھی ہے ،قابل رحم بھی اور قابل اصلاح بھی ہے۔
اول تو بہت سے مسلمان نماز ادا ہی نہیں کرتے، اگر کبھی پڑھ بھی لیں تو شرائط و آداب اور حقوق کا بالکل خیال نہیں کرتے اور خشوع وخضوع سے خالی نماز محض اٹھک بیٹھک کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اہم العبادات (نماز)کے چھوٹ جانے پر نادم ہوتے، توبہ تائب ہوتے اور شریعت کے حکم کے مطابق اپنی قضاء شدہ نمازوں کو جلد ادا کرتے لیکن افسوس کہ احساس ندامت مٹتا جا رہا ہے۔
آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں مختصر دلائل ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:
1:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا :جو شخص نماز کو( اپنے وقت پر پڑھنا) بھول جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی اس کو یاد آئے(کہ اس نے فلاں نماز نہیں پڑھی)تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔(صحیح بخاری )
نوٹ : صحیح مسلم میں یہی حدیث کچھ چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔

2: رسول اللہ ﷺ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز کے وقت میں سو جائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے اپنی قضاء شدہ نماز یاد آئے تو وہ اسے پڑھ لے۔(سنن نسائی )
3:حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت اس کو اپنی چھوڑی ہوئی قضاء نماز یاد آجائے تو جب امام سلام پھیرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ بھولی ہوئی قضاء نماز پڑھے پھر اس کے بعد دوسری نماز پڑھے۔
(موطا امام مالک )
4:حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوئہ خندق والے دن مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو چار نمازیں پڑھنے سے رو ک دیا تھا یہاں تک رات کا کچھ حصہ گزر گیا، جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپﷺنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی۔
(جامع ترمذی )
نوٹ :اس سے معلوم ہوا کہ اگر نماز کسی بھی وجہ سے یہاں تک کہ جہاد جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کے دوران بھی قضاء ہو جائے تب بھی اس کو بعد میں ادا کرنا ضروری ہے۔
5: امام بخاری حضرت ابراہیم نخعی کا قول نقل کرتے ہیں :جس شخص نے ایک نماز چھوڑ دی تو (اگرچہ)بیس سال بھی گزر جائیں تو وہ شخص اسی اپنی قضاء شدہ نماز کو ادا کرے۔(صحیح بخاری )
6: امام ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں : اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو۔
چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں۔بہر حال قضا لازم ہے۔(بحر الرائق)
7: مشہور شارحِ مسلم علامہ نووی شافعی فرماتے ہیں: جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاء اس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو جیسے نیند، اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔(شرح مسلم)
8:علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:یہ روایت کہ جو شخص رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں گی ان سب کی ادائیگی ہو جائے گی یہ روایت قطعی طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے۔
جبکہ اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہاسال کی چھوڑی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ (الموضوعات الکبریٰ)
نوٹ : فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قضاء شدہ نمازوں میں سے صرف فرض نمازوں اور وتروں کو ادا کیا جائے سنتوں اور نوافل کی قضاء نہیں کی جائے گی۔ اللہ پاک ہمیں شریعت کے احکام پر قرآن و سنت کے مطابق عمل کی توفیق نصیب فرمائے اور بدعات و خرافات سے ہماری حفاظت فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu